گوادر۔۔۔تجارتی سرگرمیوں کا نیا مرکز

گوادر۔۔۔تجارتی سرگرمیوں کا نیا مرکز

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ سی پیک منصوبہ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ وسطی ایشیا سمیت پورے خطے میں علاقائی روابط کو فروغ ملے گا، منصوبے کو گیم چینجر تصور کرتے ہیں فری زون کے بغیر کوئی بھی بندرگاہ کارآمد ثابت نہیں ہوسکتی گوادر پورٹ اور فری زون کی تعمیر سے بلوچستان کے ساتھ ساتھ پاکستان ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہوگا جولائی میں عام انتخابات ہوں گے یقین ہے کہ آنے والی حکومتیں بھی ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھیں گی، ان کا کہنا تھا کہ آج چین کے صدر شی چن پنگ اور نواز شریف کے وژن کو حقیقت کا روپ دینے کا دن ہے گوادر پورٹ، گوادر فری زون، ایکسپریس ویز، موٹرویز اوریلوے کی ترقی کے منصوبوں کے علاوہ گوادر خنجراب اور پشاور کوکراچی سے ملائیں گے ان منصوبوں سے ملکی معیشت ترقی کرے گی اور عوام خوشحال ہوں گے ہماری حکومت چاہتی ہے کہ وہ دوبارہ انتخابات جیت کر برسر اقتدار آئے تاہم جو بھی پارٹی حکومت بنائے یہ پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی آنے والی حکومتیں بھی یہ تسلسل برقرار رکھیں گی وہ گوادر میں دو روزہ بین الاقوامی ایکسپو کے افتتاح کے موقع پر خطاب کررہے تھے۔
گوادر میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی بین الاقوامی ایکسپو ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کاروباری طبقے کی نظر اب اس جانب منعطف ہورہی ہے اور فری زون کی وجہ سے گوادر اب تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کامرکز بن جائیگا ائیر پورٹ کی توسیع کا کام پہلے سے جاری ہے جس کے بعد یہاں فضائی ٹریفک میں بھی اضافہ ہوجائیگا۔یہ پیش رفت خوش آئند ہے کہ گوادر سی پورٹ سے بھی تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں چین سے تجارتی سامان گوادر آتا ہے اور یہاں سے دوسرے ملکوں کو برآمد ہوتا ہے اسی طرح اس بندرگاہ تک چین جو تجارتی سامان منگواتا ہے وہ خنجراب کے راستہ چین پہنچتا ہے، اس روٹ کے ذریعے بار برداری کا وقت بہت کم ہوگیا ہے اور سی پیک کے تحت جو منصوبے زیر تکمیل ہیں جب وہ مکمل ہوجائیں گے تو آمدورفت میں بہت زیادہ سہولتیں پیدا ہوں گی، اسی طرح وسطی ایشیا کے خشکی میں گھرے ہوئے ملکوں کو فائدہ ہوگا جن کی اپنی کوئی بندرگاہ نہیں وہ اپنا درآمدی اور برآمدی مال گوادر کے ذریعے امپورٹ اور ایکسپورٹ کرسکتے ہیں اس طرح گوادر کی وجہ سے ایسی تجارتی سرگرمیوں کا خطے میں آغاز ہوگا جس کا پہلے یہاں کوئی تصور نہیں تھا۔
وزیر اعظم عباسی نے اس منصوبے کو چین کا تحفہ اور چینی صدر شی چن پنگ اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کے وژن کا نتیجہ قرار دیا ہے جنہوں نے 2013ء کے انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالتے ہی اس منصوبے پر کام شروع کردیا تھا اور سی پیک کے تحت شروع کئے جانے والے منصوبوں کے افتتاح کے لئے چینی صدر کو دورۂ پاکستان کی دعوت دی تھی یہ دورہ اگرچہ دھرنوں کی وجہ سے تھوڑی تاخیر کا شکار ہوا تاہم بعد ازاں ان منصوبوں پر تیز رفتاری سے کام شروع ہوگیا۔ بعض منصوبے تو مکمل بھی ہوچکے ہیں اور قومی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے لگے ہیں، بعض منصوبے زیر تکمیل ہیں اور نئے منصوبے شروع ہونے والے ہیں اس طرح ترقی کا ایک ایسا خوش نما سرکل شروع ہوچکا ہے جو پوری طرح مکمل ہو جائیگا تو خطے میں بعض لوگوں کی آنکھیں خیرہ ہوجائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی کے دشمنوں اور پاکستان کے ازلی بد خواہوں کو سی پیک میں کیڑے نکالنے سے فرصت نہیں بھارت تو اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرنے سے باز نہیں رہ سکتا لیکن پاکستان کے اندر بھی اس کے بعض ریزہ چین اور زِلہ ربا ایسے ہیں جو حیلوں بہانوں سے اس پرنکتہ چینی کرتے رہتے ہیں اور ایسا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے کسی کو چین کے ان ترقیاتی وژنری منصوبوں کے اندر سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی جھلک نظر آتی ہے تو بھارت کے خوشہ چین اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ چین کے بعض منصوبے متنازعہ علاقوں سے گزرتے ہیں اس لئے یہ روک دئے جائیں۔ ترقی کے دشمنوں کو اصل تکلیف یہ ہے کہ نواز شریف کے دور میں یہ اچھا کام شروع ہوا اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت اسے آگے بڑھا رہی ہے۔ ایسے عناصر کو ملکی مفاد پیش نظر رکھ کر اپنا موقف پیش کرنا چاہئے۔
چین کی وژنری قیادت نے پوری دنیا کو ترقی کا جو نیا تصور دیا اس کی بنیادی بات یہ ہے کہ چین نہ صرف اپنے ملک کے اندر سے غربت کا خاتمہ چاہتا ہے بلکہ اس کی خواہش اور دلی تمنا ہے کہ جس حد تک ممکن ہوسکے دوسرے ملکوں سے بھی غربت کا خاتمہ کیا جائے اور غربت کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں اس انداز میں اضافہ کیا جائے کہ زیادہ سے زیادہ ہنر مند ہاتھ اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صنعتی پیداواری میں اضافہ کریں تجارتی سرگرمیوں کے ذریعے یہی پیداوار امارت کے مقامات سے غربت کے علاقوں تک پہنچتی ہے سڑکوں، ریلوں، بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کی تعمیر اسی وژن کا حاصل ہے، چینی قیادت نے جبوتی جیسے ملک میں یورپی ملکوں کے پائے کی جدید ترین الیکٹرک ٹرین چلا دی ہے، اسی طرح چین اور برطانیہ کے درمیان جدید ٹرین گڈز ٹرین بھی چلنا شروع ہوگئی ہے جس کے ذریعے اشیائے ضرورت تیز رفتاری کے ساتھ ان علاقوں میں پہنچتی ہیں جہاں اُن کی ضرورت ہے، اس طرح صارفین کو معقول قیمتوں پر یہ اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔
پاکستان کے ساتھ چین کی دوستی کی ایک قابلِ رشک تاریخ ہے اور اس کا آغاز پاکستان اور چین کی آزادی کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا ہمارے ہاں کے جن بقراطوں کو اب ایسٹ انڈیا کمپنی یاد آرہی ہے انہیں شاید معلوم نہیں کہ جدید چین کے اندر نو آبادیاتی نظام کا کوئی تصور موجود نہیں، چین نے اپنی ساری توجہ ترقی اور انسانوں کی بنیادی ضرورتوں پر مرکوز کررکھی ہے یہی وجہ ہے کہ چین کے اندر گزشتہ ایک دو عشروں میں بنیادی تبدیلی آگئی ہے اور پورے معاشرے میں ایک خوشحالی جھلکتی ہے امریکہ جیسا ملک چین کا ایک ٹریلین ڈالرز سے زیادہ کا مقروض ہے اور امریکی مارکیٹیں چینی سازوسامان سے بھری پڑی ہیں بعض اوقات اشتعال انگیز بیانات کے باوجود چین کی قیادت سخت ردِ عمل سے گریز کرتی ہے اور اپنی توجہ اپنی ترجیحات پر مرکوز رکھتی ہے، اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ بعض تنازعات کو نظر انداز کرکے چین کی قیادت نے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ہے اور تنازعات کو کشیدگی میں ڈھلنے نہیں دیا، یہاں تک کہ بھارت کے اندر بھی چین نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، اس پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے خطے میں چین کی دلچسپی کو دیکھنا چاہئے۔ پاکستان کے ساتھ توچین کی دوستی ویسے بھی ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھی ہے۔ اس لئے جو لوگ منفی سوچ رکھتے ہیں انہیں اپنی سوچ بدلنے اور سی پیک کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اسی لئے سی پیک کو چین کا تحفہ قرار دیا ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -