سینٹ الیکشن کا شیڈول جاری،52ریٹائر اور اتنے پھر منتخب ہوں گے

سینٹ الیکشن کا شیڈول جاری،52ریٹائر اور اتنے پھر منتخب ہوں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سینٹ انتخابات ہوں گے یا نہیں یہ وہ سوالات تھے جو گزشتہ کچھ عرصے سے ہرپاکستانی کررہا تھا،بعض اپوزیشن جماعتیں چاہتی اور پورا زورلگارہی تھیں کہ کسی طرح سینٹ کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوجائے مگر ایسا ہونہیں سکا،مسلم لیگ ن کے سابق وزیرعظم محمدنوازشریف عدلیہ سے نااہل ہونے کے بعدوزارت عظمی کے عہدے پرقائم نہیں رہ سکے مگر مسلم لیگ ن کی حکومت اب بھی شاہدخاقان عباسی کی سربراہی میں بدستورموجود ہے اب جبکہ الیکشن کمیشن نے سینٹ کے انتخابات 2018ء کیلئے شیڈول کااعلان کردیا ہے تو ساری سیاسی جماعتوں کی توجہ 3مارچ کوہونیوالے سینٹ انتخابات پرمرکوزہوگئی ہیں،الیکشن کمیشن سے جاری شیڈول کے مطابق سینٹ انتخابات 3 مارچ کو ہوں گے، سینیٹ انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی4 فروری سے 6فروری تک جمع کرائے جاسکیں، جب کہ کاغذات کی جانچ پڑتال9فروری تک مکمل کی جائے گی پولنگ 3مارچ کو ہوگی۔ سندھ اور پنجاب سے 12،12 سینیٹرز، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 11،11 سینیٹرز کا انتخاب کیا جائے گا۔اسلام آباد سے ایک جنرل اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست پر انتخاب ہوگا جب کہ سندھ اور پنجاب سے7 جنرل، 2 ٹیکنوکریٹس، 2خواتین اور ایک اقلیتی رکن کا انتخاب ہوگا، فاٹا سے 4نشستوں پر انتخاب ہوگا اور چاروں جنرل نشستیں ہیں۔سینٹ انتخابات کااعلان ہوتے ہی بڑے پیمانے پرجوڑ توڑ شروع ہوگیا ریٹائرڈ ہونیوالے سینیٹرزنے دوبارہ سینیٹر بننے کیلئے لابنگ شروع کردی ہے تاکہ ایک بارپھر سینٹ کاممبر بن سکیں مگر ریٹائرڈ ہونیوالے زیادہ تر سینیٹرز کے حق میں فضا سازگارنظرنہیں آرہی، جو سینیٹرز ریٹائرڈہورہے ہیں ان میں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی سمیت قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن اور وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار بھی شامل ہیں ،اس بات کا قوی امکان ہے کہ پیپلز پارٹی رضا ربانی اور اعتزاز احسن کو دوبارہ ٹکٹ دے دیگی جب کہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹراسحٰق ڈار کو ٹکٹ دینے کے حوالے سے دیکھنا یہ ہے کہ لیگی قیادت کیا فیصلہ کرتی ہے ،کیونکہ ایک طرف ان کیخلاف نیب عدالت میں کیسز چل رہے ہیں جبکہ وہ خود بھی اس وقت علاج کرانے کے سلسلے میں ملک سے باہر ہیں اسحق ڈارکے حوالے سے حتمی فیصلہ مسلم لیگ ن کی قیادت ہی کریگی،ریٹائرڈ ہونے والے سینیٹرز میں مسلم لیگ (ن ) کے سینیٹر ایم حمزہ ، نثار محمد خان اور سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ سمیت ایم کیو ایم کے فروغ نسیم پاکستان مسلم لیگ کے کامل علی آغا ، روبینہ عرفان ، بی این پی عوامی کی نسیمہ احسان بھی شامل ہیں کیا ان کو انکی پارٹیاں ٹکٹ دیں گی اس حوالے سے چہ میگوئیاں جاری ہیں، پیپلز پارٹی کی جانب سے بعض نئے چہروں کو سامنے لانے کابھی سناجارہا ہے۔
ایوان بالا سے 11 مارچ کو 104 میں سے 52ممبران ریٹائرڈ ہو رہے ہیں جن میں پنجاب اور سندھ سے 12،12، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے 11،11 سینیٹرز ریٹائر ہورہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے 26 ممبران میں سے 18سینیٹرز، مسلم لیگ (ن )کے 27میں سے 9سینیٹرز ریٹائر ہورہے ہیں۔اسلام آباد سے 2 اور فاٹا سے بھی 4سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے جب کہ جے یوآئی (ف)کے5میں 3سینیٹرز ریٹائر ہو جائیں گے۔عوامی نیشنل پارٹی کے 6میں سے 5سینیٹرز اور تحریک انصاف کے 7میں سے ایک سینیٹر ریٹائر ہوگا جب کہ مسلم لیگ (ق) کے تمام 4سینیٹرز ریٹائر ہو جائیں گے۔ایم کیوایم کے طاہرمشہدی، نسرین جلیل اور فروغ نسیم بھی ریٹائر ہونے والوں میں شامل ہیں جب کہ اسحاق ڈار، نزہت صادق، کامران مائیکل، ذوالفقارکھوسہ اور نثارمحمد خان بھی ریٹائر ہوجائیں گے، زیادہ تر خیال یہی کیا جارہا ہے کہ ریٹائرڈ ہونے والے سینیٹرز کی اکثریت کا سینیٹ میں دوبارہ سینیٹر بننا مشکل نظر آرہا ہے،سینٹ الیکشن کے بعد بظاہریہی لگ ہے کہ مسلم لیگ ن سینٹ میں اکثریتی جماعت بن جائے گی جس طرح پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورحکومت میں ہونیوالے سینٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی سینٹ میں اکثریت میں آگئی تھی جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن وفاقی حکومت بنانے کے باوجود سینٹ میں اکثریت حاصل نہ کرسکی تھی اب ایک بارتاریخ اپنے آپ کو دھرانے جارہی ہے اگرآئندہ حکومت مسلم لیگ ن کے بجائے کسی اور سیاسی جماعت پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کی بنی تو مسلم لیگ ن سینٹ میں اکثریت کیوجہ سے ٹف ٹائم دیگی لیکن یہ ساری صورتحال سینٹ الیکشن ہونے کے بعد ہی سامنے آئیگی جبکہ بلوچستان میں حال ہی میں ہونیوالی ان ہاؤس تبدیلی بھی سینٹ الیکشن کے نتائج پراثرانداز ہوگی۔
مسلم لیگ ن کی قیادت کیخلاف جہاں ایک طرف نیب عدالت میں کاروائی چل رہی ہے وہاں دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزاد ی مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے مدعی عدنان اقبال کی درخواست کی سماعت کی جس میں نواز شریف، مریم نواز، الیکٹرانک میڈیا کے نگراں ادارے پیمرا اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ پاناما فیصلے میں نااہل قرار پانے اور وزارت عظمی سے برطرفی کے بعد نواز شریف اور مریم نواز عدالتوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ دونوں سیاسی رہنما ؤ ں نے کوٹ مومن جلسے میں اور پنجاب ہاوس میں عدلیہ مخالف تقاریر کیں۔درخواست گزار نے استدعا کی کہ نواز شریف اور مریم نواز کے خطابات اور بیانات توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں، عدالت سے گزارش ہے کہ دونوں فریقوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔جبکہ دوسری جانب سابق وزیراعظم کے سمدھی اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس اختتامی مراحل میں داخل ہوگیا ہے، مجموعی طور پر28 میں سے24 گواہوں کے بیانات قلمبند ہو گئے احتساب عدالت میں سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس کی سماعت جج محمد بشیر نے کی،استغاثہ کے چھ گواہان شکیل انجم، ڈپٹی ڈائریکٹرنیب اقبال حسن ، عمردراز گوندل، محمد اشتیاق، ڈسٹرکٹ افسرانڈسٹریزاصغرحسین اورنیب اسسٹنٹ ڈائریکٹر زاورمنظورنے بیانات قلمبند کرائے،کمشنر ان لینڈ ریونیو اشتیاق احمد نے احتساب عدالت کے روبرو انکشاف کیا کہ صرف16سال کے عرصے میں سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی دولت میں 91 گنا فیصد اضافہ ہوا۔

مزید :

ایڈیشن 1 -