استعفوں کی سیاست پر مردائی چھا گئی، تحریک انصاف میں اختلاف، جماعت اسلامی الگ

استعفوں کی سیاست پر مردائی چھا گئی، تحریک انصاف میں اختلاف، جماعت اسلامی الگ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


خیبر پختونخوا کی حکمران جماعت تحریک انصاف اسمبلیوں سے استعفوں بارئے واضح طور پر منقسم نظر آرہی ہے تحریک انصاف کے اراکیں پارلیمنٹ کی اکثریت اسمبلیوں سے استعفوں کے فیصلے کے حق میں نہیں ہیں جسکی ٹھوس وجہ ساڑھے چار برسوں میں پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کی طرف سے اپنے حلقوں اور صوبے بھر میں کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام نہ کرنا ہے اب سیاسی بحران اٹھنے کے بعد صوبائی حکومت اور اس کے اراکین اسمبلی نے خزانے کے منہ کچھ اس طرح کھول دےئے ہیں کہ صوبہ بھر کی سٹرکوں اور گلیوں کو ادھیڑ کے رکھ دیا گیا حکومت اور اس کے اراکین ترقیاتی منصوبوں کی جلد از جلد تکمیل اور اپنے ناموں کی تختیاں لگانے کیلئے کوشاں ہیں حکومتی اراکین کے اس روئیے کے باعث تحریک انصاف کے قائد عمران خان اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے پر جوش اعلان کے بعد اچانک خاموش ہو گئے اور نہ صرف میڈیا پر آنا کم کردیا بلکہ استعفوں کے معاملے پر بات بھی کرنے سے گریز کرتے ہیں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اپنے اراکین کے عدم تعاون کی وجہ سے اندر سے ٹوٹ چکے ہیں دوسری طرف پیپلز پارٹی کے صدر آصف زرداری اور جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمٰن خیبرپختونخوا میں درپردہ غیر معمولی طور پر متحرک نظر آتے ہیں آصف زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی رہنماؤں کا اھم اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا جس کے اعلامیے کے مطابق آصف زرداری نے پارٹی اراکین کو سینٹ الیکشن کے لئے متحرک ہونے کی ھدایت کی مگر دوسری طرف زرداری کے حمایت یافتہ مولانافضل الرحمٰن نے ممکنہ عدم اعتماد تحریک کی کامیابی کیلئے اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشیش تیز کر دیں جے یو آئی کو اس سلسلے میں اپنے مقصد میں اس وقت اھم کامیابی ملی جب مخلوط حکومت میں شامل جماعت اسلامی نے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کی صورت میں صوبائی حکومت کی حمایت سے دو ٹوک الفاظ میں انکار کر دیا جماعت اسلامی کی پالیسی میں واضح تبدیلی سے صوبائی حکومت کو شدید دھچکا لگا جس کے رد عمل میں وزیر اعلٰی پرویز خٹک سمیت بعض وزراء اور اراکین اسمبلی نے جماعت اسلامی کے متعلق سخت الفاظ استعمال کئے جماعت اسلامی کی طرف سے جے یو آئی کے موقف کی حمایت سے پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کو حوصلہ ملا بعض اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے ناراض اراکین اسمبلی نے عدم اعتماد کی تحریک کی ممکنہ کامیابی کیلئے جے یو آئی کے ساتھ رابطے استوار کر لئے ہیں خیال ہے کہ آصف زرداری بلوچستان کی طرح خیبرپختونخوا میں کوئی بڑی سیاسی گیم کھیل کر سینٹ کے انتخابات میں غیر معمولی نشستیں خاصل کر سکتے ہیں اور پی ٹی آئی جو کہ اس وقت صوبائی اسمبلی میں اکثریت رکھتی ہے اسے سینٹ کی بعض نشستوں سے محروم کر کے پی ٹی آئی اور جے یو آئی کو فائدہ دلوایا جاسکتا ہے۔
تحریک انصاف اور صوبائی حکومت ممکنہ عدم اعتماد کی تحریک سے نمٹنے کیلئے تیاری کر چکی ہے اب بظاہرا یسالگ رہا ہے کہ عمران خان کی طرف سے صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے ممکنہ اعلان کو زائل کرنے کیلئے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے گی جس کے بعد وزیر اعلٰی کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ختم ہو جائے گا اور بلوچستان کی طرح خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی ان ہاؤس تبدیلی کیلئے راستہ ہموار ہو جائے گا اگر ایسا ہو گیا تو سیاسی منظر نامے پر جے یو آئی نمایاں نظر آئے گی مگر اس ساری گیم کا ماسٹر مائینڈ اسلام آباد میں خاموش بیٹھا ملے گا جو کہ آصف زرداری ہے بہر خال اب آنے والے دنوں میں دیکھنا ہو گا کہ اس سارئے کھیل میں عمران خان کیا پوزیشن اختیار کرتے ہیں نئے سیاسی کھیل میں زرداری بھی اپنے مقاصد کے حصول کیلئے پر امید نظر آتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی نے طویل عرصہ سے قائم اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے پشاور میں اپنے پاور شو کا بھر پور مظاہرہ کیا باچا خان اور ولی خان کی برسی کی مناسبت سے پشاور میں بہت بڑے جلسے کا اہتمام کیا گیا جس میں صوبے بھرسے کارکنوں کی غیر معمولی تعداد نے شرکت کی اس جلسے نے اے این پی کی بے جان سیاست میں نئی روح پھونک دی ہے اے این پی کے قائد اسفندیار ولی خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نام لئے بغیر عمران خان سمیت اپنے مخالفین پر تنقید کی اسفندیار ولی خان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے شخص کا پارلیمان پر لعنت بھیجنا شرمندگی کا مقام ہے‘ اسفندیار ولی خان نے واضح کیا کہ جمہوری اداروں پر کسی بھی حملہ کی کوشش کی بھرپور مخالفت کرینگے ہمارے ملک خصوصاً صوبے میں اسلام کے نام پر اسلام آباد کی سیاست کی جا رہی ہے اسفندیار ولی خان نے فاٹا کے حوالے سے اپنا مؤقف دہراتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن سے قبل فاٹا کو صوبے میں شامل کیا جائے اسفندیار ولی خان نے مخالفین پر تنقید کے دوران اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے نہیں دیا ان کا یہ جلسہ بہرحال ایک کامیاب اور بہت بڑا جلسہ تھا اے این پی کے اس جلسے کو باقاعدہ انتخابی مہم کا آغاز سمجھا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

مزید :

ایڈیشن 1 -