ماورائے عدالت قتل جیسے واقعات سے بچنے کے لئے ریاستی پالیسی تبدیل کریں
الیکشن کمیشن کی طرف سے سینٹ کے الیکشن کے شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد سندھ میں بھی سیاسی سرگرمیوں کا محور سینٹ کے انتخابات ہی ہوگئے، سندھ اسمبلی میں منتخب ہونے والی دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اپنے اپنے امیدواروں کے نام فائنل کرنے میں مصروف ہوگئی ہیں، اس بار الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی ٹکٹ کا تصدیق نامہ منسلک کرنے کی شرط عائد کردی ہے۔ جس کی وجہ سے پارٹیوں کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے امیدواروں کی حتمی فہرست 3فروری سے قبل مکمل کرلیں قبل ازیں پارٹیوں کو یہ مہلت تھی کہ وہ ایک ایک نشست پر کئی کئی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی داخل کروادیتے تھے بعد میں جس امیدوار کا نام فائنل ہوتا، اس کو پارٹی ٹکٹ کا تصدیق نامہ جاری کردیا کرتے تھے۔ اب پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے قبل کرنا ہوگا۔تاہم پارٹیاں اصل امیدوار کے ساتھ ایک یا ایک سے زائد متبادل امیدوار کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے پارٹی ٹکٹ کے عبوری تصدیق نامہ جاری کرنے کی تجویز پر غور کررہی ہیں۔ 3فروری تک حتمی صورت واضح ہوجائے گی۔ سینٹ کے انتخابات کی گہما گہمی کے باوجود ملک بھر کی طرح صوبہ سندھ خصوصاً کراچی شہر میں بھی ہر جگہ گلی محلوں، کوچہ و بازار سمیت سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بحث ومباحثہ کے موضوع گفتگو میں اہم ایشوز وہی ہیں ایک ان کاؤنٹر اسپیشلسٹ معطل ایس ایس پی راؤ انوار اور قصوری سات معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی کا سلوک کرنے کے بعد موت کے گھاٹ اتارنے والے ’’بھیڑیا صفت‘‘ قاتل عمران علی کے حو الہ سے ’’اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود‘‘ کے 37بینک اکاؤنٹس کے حوالہ سے جڑے دوسرے انکشافات کا سپریم کورٹ کے سامنے اپنے دعوؤں کا کوئی ثبوت نہ فراہم کرنے کے باوجود ’’اپنی خبر‘‘ کی صداقت پر اصرار کرنے کے ’’آزاد صحافت‘‘ پر ممکنہ منفی مضمرات، آزاد منش صحافی برادری کی خواہش ہے کہ اب سپریم کورٹ اس کیس کی سماعت میں کوئی ایسا حتمی فیصلہ صادر کرہی دے۔ جس سے ایک طرف تو آئین پاکستان نے ’’آزدی صحافت‘‘ کی جو ضمانت دی ہے۔ اس پر حکومت وقت یا ریاست کا کوئی دوسرا طاقتور ادارہ کسی قسم کی قدغن نہ لگاسکے اور ساتھ ہی صحافت کے مقدس پیشہ کو ’’ان کالی بھیڑوں‘‘سے پاک کرنا بھی آسان ہوجائے جنہیں ’’پیرا شوٹ‘‘ کے ذریعہ خاص ’’ایجنڈے‘‘ کے ساتھ مسلط کردیا جاتا ہے۔ جو پیشہ صحافت کی بنیادی اخلاقیات کی حدود و قیود کی پابندی کو کسی خاطر میں لانے کے قائل ہیں اور نہ ہی اس اہم شعبہ کی ’’مبادیات‘‘ سے کماحقہ آگاہ ہیں ۔ اپنے ذاتی ایجنڈے اور اپنے سرپرستوں کے ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لئے جس وقت جو منہ میں آتا ہے اس طرح نشر کردیتے ہیں، جیسے یہ ان پر ’’القاء‘‘ ہوئے ہوں، اس ’’مقدس پیشہ کی بے حرمتی‘‘ کا یہ کھیل وطن عزیز میں کئی عشروں سے جاری ہے۔ یہ کھیل انہوں نے بھی کھیلا جنہوں نے بار بار ماورائے آئین اقدام کرکے بندوق کی نوک پر اقتدار پر قبضہ کیا اور انہوں نے بھی جو عوام کے ووٹ کی سند حاصل کرکے جائز اور قانونی طور پر عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے اثرورسوخ کے استعمال سے اپنے چہیتوں کو آگے لاکر آزادی صحافت کے لئے آزاد منش صحافیوں کی ان لازوال قربانیوں کو بے ثمر کیا۔ جو وہ اس پیشہ کی حرمت کو برقرار رکھنے کے لئے دیئے چلے آرہے ہیں، بقول سلیم کوثر:
جو تیری راہ میں مرگئے وہ کدھر گئے
یہاں شہر میں تو مزار ہے کسی اور کا
بدقسمتی تو یہ ہے کہ اس پیشہ میں ’’پیراشوٹ‘‘ کے ذریعہ اتارے جانے والوں کے مبلغ علم کا یہ عالم ہے کہ ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ مولانا محمد علی جوہرؒ کہاں مدفون ہیں۔ ان کے مطابق مولانا محمد علی جوہرؒ کو ’’کالے پانی‘‘ کی سزا ہوئی تھی اور وہ ’’کالے پانی‘‘ کی سزا کے دوران ہی فوت ہوگئے وہیں مدفون ہیں۔ حالانکہ آزادی کی تاریخ سے معمولی واقفیت رکھنے والا بچہ بھی جانتا ہے وہ بیت المقدس میں مدفون ہیں مولانا محمد علی جوہرؒ کا انتقال لندن میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے دوران ہوا تھا، انہوں نے گول میز کانفرنس میں اپنے آخری خطاب میں کہا تھا کہ ’’اب میں غلام ہندوستان میں واپس نہیں جاؤں گا، اس طرح کا ایک واقعہ ایک دوسرے بڑے چینل پر ایک پروگرام میں ایک بڑے دانشور تجزیہ نگار نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں بمبئی کے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے مشہور مسلمان مسلم لیگی آئی آئی چندریگر (مرحوم) کو پاکستان کی پہلی کابینہ کا غیر مسلم وزیر قرار دے دیا تھا حالانکہ وہ 1946ء کے انتخاب کے بعد نیز جواہر لال نہرو کی قیادت میں قائم ہونے والی کانگریسی اور مسلم لیگ کی مخلوط حکومت میں مسلمان وزیر کی حیثیت سے مسلم لیگ کی طرف سے وزیر تجارت تھے اور پاکستان کی پہلی کابینہ میں بھی وزیر تجارت اور بعدازاں وزیر اعظم بنے۔ ان بزرگ دانشور تجزیہ نگار کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ آئی آئی چندریگر مخفف ہے ابراہیم اسماعیل چندریگر کا۔ الیکٹرانک میڈیا میں اس طرح کی حقائق کے منافی غلط معلومات کا تدارک اس وقت تک ممکن نہیں ہے۔ جب تک سختی کے ساتھ موثر انداز میں نیوز کے شعبہ اور کرنٹ افیرز کے شعبہ سمیت تمام شعبہ جات میں ’’ادارت‘‘ پر ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر کا مکمل آزادی کے ساتھ کنٹرول قائم نہیں ہوگا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سرمایہ کاری کرنے والے ساہوکاروں کو بھی اب کم از کم اتنی آزادی تو اپنے اپنے میڈیا ہاؤ سز کے ’’ادارتی بورڈ‘‘ کو دینا پڑے گی، جتنی آزادی روزنامہ ’’ڈان‘‘ اخبار اور ’’ڈان‘‘ ٹی وی کے ادارتی بورڈ کو حاصل ہے، روزنامہ ’’ڈان‘‘ اگرچہ آل انڈیا مسلم لیگ کی ملکیت میں نکلا تھا، مگر قیام پاکستان کے چند سالوں کے بعد یہ سرعبداللہ ہارون(مرحوم) کے خاندان کے زیر انتظام ٹرسٹ کے تحت نکل رہا ہے، اس کا ایڈیٹر ادارتی امور میں کتنا بااختیار ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید) کے دوسرے دور حکومت میں اس ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے، اس زمانے میں محمود اے ہارون(مرحوم) محترمہ کی حکومت میں گورنر سندھ تھے، ایک دن جب محترمہ نے گورنر ہاؤس میں سینئر صحافیوں سے گورنر ہاؤس میں ملاقات کی تو محترمہ کے بہت ہی قریبی شخص نے محترمہ کی موجودگی میں گورنر محمود اے ہارون کو ’’ڈان‘‘ اخبار کا شمارہ ہاتھ میں تھمایا اور کہا کہ آپ ہماری حکومت میں گورنر ہیں اور آپ کا اخبار ہماری حکومت کے بارے میں یہ کچھ چھاپ رہا ہے۔ تو گورنر محمود اے ہارون نے محترمہ کی موجودگی میں ان صاحب کو ترنت جواب دیا کہ ’’ڈان‘‘ اخبار ادارتی پالیسی میں ایک آزاد اور خودمختار پالیسی کا پابند ہے۔ اخبار میں کیا شائع ہوگا اور کیا شائع نہیں ہوگا۔ اس کا فیصلہ محمود ہارون نے نہیں اخبار کے ایڈیٹرنے کرنا ہوتا ہے، آپ کو کوئی شکایت ہے، تو مجھ سے نہیں ایڈیٹر سے بات کریں آپ آئندہ مجھ سے کبھی اس پر بات نہ کریں۔
آزادی صحافت کے لئے عامل صحافیوں نے بھی بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور اخبارات و جرائد کے ان صحافی مالکان نے بھی جنہوں نے آزاد صحافت کا پرچم سربلند رکھنے کے خاطر اپنے اخبارات و جرائد ضبط کرائے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں آج بھی آزاد صحافت کو لاحق خطرات سے عہدہ برا ہونے کے لئے یہ مالکان ایڈیٹرز اور عامل صحافیوں کی تنظیموں کو مشترکہ طور پر اشتراک عمل کرنا پڑے گا۔ تب ہی اس پیشہ میں اس ’’پیرا شوٹ‘‘ مخلوق کا داخلہ بند ہو سکے گا جس نے غیر ذمہ داری کی انتہا کر کے اس پیشہ کا اعتبار و اعتماد مجروح کیا اور لفظ کی حرمت کو بے وقعت بنایا ہے۔
اب ذرا ذکر اس دوسرے موضوع کا جو سب سے زیادہ زیر بحث ہے۔ وہ ہے کراچی کے ضلع ملیر کے معطل ایس ایس پی راؤ انوار کی گرفتاری جو سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی مدت ختم ہونے کے بعد بھی عمل میں نہیں آ سکی۔ یہ سطور شائع ہوں گی تو سپریم کورٹ دوبارہ جعلی پولس مقابلے میں قتل کئے جانے والے نقیب اللہ محسود کے از خود نوٹس کی سماعت میں معطل راؤ انوار کے حوالہ سے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور وفاقی سکریٹری داخلہ اور سول ایوی ایشن کے حکام تمام ایئر لائنز کے ریکارڈ کے ساتھ ذاتی جہاز مالکان کے چارٹرڈ جہازوں کا ریکارڈ بھی سپریم کورٹ میں پیش کر چکے ہوں گے کہ راؤ انوار کسی کے جہاز میں تو بیرون ملک فرار نہیں ہوا ہے۔ سپریم کورٹ اپنی گزشتہ سماعت کے دوران کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ ’’پتہ کرو راؤ انوار کہاں ہے یہاں راؤ انوار کو چھپانے والے بڑے بڑے لوگ موجود ہیں۔ کہیں کسی نے اس کو چھپایا تو نہیں ہے۔ آپ کسی دباؤ میں آئے بغیر کام جاری رکھیں۔ اگر آپ کو کسی کا دباؤ ہے تو ہمارے کندھے حاضر ہیں چیف جسٹس نے اپنے ایک اور ریمارک میں آئی جی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ راؤ انوار وہاں ہوں جہاں تک آپ کی پہنچ نہ ہو آئی جی سندھ کی قائم کردہ ایڈیشنل آئی جی سندھ ثناء اللہ عباسی کی قیادت میں قائم تحقیقاتی کمیٹی اپنی رپورٹ میں نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں ماورائے عدالت قتل قرار دے چکی ہے۔ اب باقی ان تین مقتولوں کے بارے میں بھی یہی شواہد سامنے آئے ہیں اور انکا قتل بھی جعلی پولیس مقابلے میں ہوا ہے سوال راؤ انوار کی ذات کا نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ ریاست کے مقتدر اور با اختیار ادارے کب اس غیر اعلانیہ پالیسی کے منفی اور نا قابل تلافی مضر اثرات کے تدارک کے لئے وہ حکمت عملی مرتب کریں گے جس سے جرائم پیشہ قانون شکن عناصر اور ریاست کی سلامتی کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے ہتھیار بند گروہوں، ان کے سہولت کاروں اور ان کے داخلی اور خارجی سرپرستوں کا قلع قمع بھی ممکن ہو جائے اور راؤ انوار جیسے پولیس افسر پولیس وردی میں ریاست کے مقتدر اداروں اور مقتدر با اثر سیاسی شخصیات کی سرپرستی کی دھونس دکھا کر بے گناہوں کے قتل کی جرأت بھی نہ کر یں ایسا تب ہی ممکن ہوگا جب حکومت اور ریاستی ادارے قانون شکن عناصر اور ہر قسم کے ہتھیار بند مسلح گروہوں (جن میں سیاسی اور غیر سیاسی شامل ہیں) مجرموں کو قانون کی عدالتوں سے قرار واقعی سزا دلانے کے لئے تفتیش بھی درست طریقہ سے کرنے کو یقینی بنائیں اور تفتیش کے بعد عدالتوں میں مقدمہ لڑنے والے مکمل تیاری، ناقابل تردید ثبوتوں اور شواہد کے ساتھ پیش کرنے کی اہلیت رکھنے والے قانونی ماہرین کی اسی قسم کی خدمات حاصل کریں جو برق رفتاری کے ساتھ عدالتوں میں قانونی کارروائی کو مکمل کرانے میں عدالتوں کے معاون بن سکیں۔ یہ ہوگا تو راؤ انوار جیسے پولیس افسروں کی ضرورت ریاست اور ریاستی اداروں کو نہیں پڑے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ آج پولیس میں قابل، دیانت دار پولیس اہلکار ناپید ہو گئے ہوں۔ ریاست 1993ء میں قائم کی جانے والی غیر اعلانیہ پالیسی کو متروک کرنے کا فیصلہ کرے کہ کسی کو ماورائے عدالت قتل، جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ تو قانون شکن عناصر اور ریاست کے خلاف ہر قسم کے ہتھیار بندجتھوں کا خاتمہ قانون کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے بھی ممکن ہے محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید) کے دوسرے دور حکومت میں غیر اعلانیہ پالیسی اختیار کی گئی تو کراچی میں متعین ایک اعلیٰ پولیس افسر افضل شکری نے اس پالیسی کی تائید کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد انکا سندھ سے تبادلہ کر دیا گیا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے دو ٹوک الفاظ میں جعلی پولیس مقابلوں کے ذریعے ماورائے عدالت قتل کو سنگین جرم قرار دے دیا ہے۔ اب لازم ہے کہ گزشتہ چار عشروں کے دوران ہونے والے سارے جعلی ان کاؤنٹرز کی تحقیقات اعلیٰ سطح کی با اختیار جے آئی ٹی کے ذریعے کرائی جائے۔اور ان سب شخصیات کو قانون ے کٹہرے میں لا کر کھڑا کیا جائے۔ جنہوں نے ان کی سرپرستی کی اور اس کے سہولت کار بنے۔ یہ ہوگا تو جعلی مقابلوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔