ہانکے والے آگے بڑھ رہے تھے یاکیاہورہاتھامجھے کچھ معلوم نہیں ۔میں ان کی طرف سے بے نیاز ہو کر پوری طرح متحرک گھاس کی طرف متوجہ تھا۔اب جو شے متحرک تھی وہ مجھ سے اسّی گز پر رہ گئی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے فاصلہ برابر کم ہوتا جارہا ہو۔
میں مسلسل اسی طرف دیکھے جا رہا تھا ۔گھاس میں کہیں کہیں درخت تھے اور کسی کسی جگہ جھاڑیاں ۔لیکن درخت بڑے اور تناور نہیں تھے ،نہ جھاڑیاں ہی گنجان تھیں ۔اگر وہ جانور میری طرف بڑھنا چاہتاتو تھوڑی کھلی جگہ طے کرنا لازمی تھااوراس کھلی جگہ کوکوئی بھی جاندار اتنا تیز طے نہیں کرسکتا تھاکہ میں اُسے دیکھ نہ سکوں ۔بہرحال اس جانور کا اس وقت مقصد یہی تھاکہ گھاس سے نکل کر جھاڑی کی آڑ میں آجائے۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 16 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مجھے اب پوری طرح یقین ہوگیا تھا کہ یہ متحرک شے شیر کے سوا اور کوئی نہیں ۔لیکن یہ خیال قطعی نہیں تھا کہ اس کی منزل مقصود ہم لوگ ہیں ۔اسی وقت دوبارہ حرکت ہوئی اور اب شیر گھاس سے گزر کر جھاڑی کی آڑ میں آگیا ۔اُس وقت فاصلہ ستر گز ہوگا ،لیکن جس جھاڑی کی اس نے آڑ لی تھی وہ گنجان نہیں تھی۔کہیں کہیں سے اس کا جسم نظر آرہا تھا ۔لیکن اتنا صاف نہیں کہ میں ٹھیک نشانہ لے کر فائر کرسکتا ۔
ہانکے والے چونکہ روکے نہیں گئے تھے ،اس لیے وہ برابر بڑھے چلے آرہے تھے ۔تقریباًپانچ منٹ اسی حالت میں گزر گئے۔اور اب فاصلہ ساٹھ گز کے قریب رہ گیا ۔پانچ منٹ گزرنے کے بعد اچانک بادل کی شدید گرج کی سی آواز ہوئی ۔شیر نے اپنے حملے کا آغاز کردیا تھااور حملہ بھی مجھ پر!
شیر کی وہاڑکے اثر سے جو کیفیت ہوتی ہے ۔اس سے سنبھلتے ہی میں نے نشانہ لیا ۔وہ اب بلی کی طرح جھک کر بہت ہی تیز دوڑ رہا تھا اور مسلسل غرارہا تھا۔میں اس کے اگلے حصے کو مکھی پر لیے ہوئے تھا۔وہ مجھ سے تیس چالیس گز پر آکر ذراٹھہرااور پھر سنبھل کر ایک بہت طویل جست کی ۔جس وقت وہ جست کرکے زمین پراترا،اسی وقت ٹریگر پر میری انگلی کا دباؤ بڑھااور فائر ہوگیا لیکن گولی خالی گئی۔ہاں ،یہ ضرور ہوا کہ اس دھماکے نے شیر کاسیدھا رخ پھیردیا۔میں نے دوسرا فائر کیا۔وہ بھی خالی گیا۔اب شیر سیدھا پہاڑ کی طرف بھاگا۔اس مقام سے پہاڑ تک کوئی دو سو گز کا فاصلہ تھا۔مجھے وہ بھاگتاہوا صاف نظر آرہا تھا۔لیکن اب فائر کا موقع نہیں تھا۔
جون کی شدید گرمی اور دھوپ کا وقت۔شیر اور وہ بھی بڈھا۔زیادہ تیز نہیں بھاگ سکتا تھا ،پھر بھی میدان طے کرکے جنگل میں داخل ہوہی گیا ۔اس عرصے میں ہانکے والے بھی آپہنچے تھے۔وہ میرے ایما کے بغیر ہی شیر کے تعاقب میں دوڑ پڑے ۔میں بھی طوعاًوکرہاًاسی طرف چلا۔۔۔۔میرے پہنچنے سے پہلے ہی گاؤں کے چند نوجوانوں نے درختوں پر چڑھ کر شیر کی کمین گاہ معلوم کرلی تھی۔جب میں وہاں پہنچا تو انھوں نے بتایا کہ شیر دو چٹانوں کے درمیان بھیگی بلی کی طرح سکڑا سکڑایااگلے ہاتھوں پر سر ڈالے زورزور سے ہانپ رہا ہے۔
میں ان کے بتائے ہوئے مقام کی طرف بڑھا۔عبدالرحیم بھی میرے ساتھ تھا۔گاؤں کے ایک دو آدمی اور بھی تھے۔اچانک ایک شخص کی نظر شیر پر پڑی اور اس نے مجھے دکھلایا۔شیر اسی ہئیت سے بیٹھا تھا جو میں نے اوپر بیان کی ہے ۔میری نظر ملتے ہی اس کے پچھلے پیروں اور پٹھوں میں خفیف سی حرکت ہوئی۔میں اس حرکت کا مطلب اچھی طرح جانتا ہوں۔۔۔وہ موذی اچھل کر حملہ کرنے والا تھا۔
اس کا سر اور شانے بالکل سامنے تھے ۔میں نے آنکھوں کے درمیان دماغ کی طرف جانے والی لائن کا نشانہ لیا اور فائر کردیا۔اتفاق کی بات کہ جلدی میں انگلی پھسل گئی اور دوسرا ٹریگر بھی دب گیا۔دونوں نالیں ساتھ ہی فائر ہوئیں اور بڑی رائفل کے اتنے شدید دھکے سے میں چاروں شانے چت زمین پر گرگیا۔عین اسی وقت میرے ساتھی ’’شیر آگیا‘‘کا نعرہ مار کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
دونوں نالیں بیک وقت فائر ہوئی تھیں ۔میں زمین پر گراپڑا تھا اور ان بھاگنے والوں کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی یھی کہ ’شیر آگیا‘ ۔ میں نے آنکھیں میچ لیں اور اپنے آپ کو تقدیر کے حوالے کردیا۔
لیکن دوسرے ہی لمحے جب شیر نہ آیا تو میں تیزی سے اُٹھا، رائفل اٹھا کر کارتوس لگائے اور شیر کی طرف دیکھا۔ وہ مجھ سے پندرہ گز کے فاصلے پر زمین پر پڑا لوٹ رہا تھا۔ شیر کے حملہ کرنے کا فاصلہ کرلیا اور اس کے بعد دل کا نشانہ لے کر فائر کردیا۔گولی ٹھیک دل پر لگی اور یہ خونخوار آدم خور کوئی جنبش کئے بغیر ہی فنا ہوگیا۔(جاری ہے)