وزیراعظم اور میانوالی

وزیراعظم اور میانوالی
وزیراعظم اور میانوالی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرے میانوالی پر خدا کی بہت رحمتیں ہیں، مُلک بھر میں میانوالی کی بہت شہرت ہے۔ جب کوئی پوچھتا ہے کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ جواباً جب میانوالی کا نام بتایا جاتا ہے تو پوچھنے والا حیران ہو کر پوچھتا ہے، اچھا تو آپ میانوالی کے رہنے والے ہیں۔۔۔ ذرا میانوالی کے بارے میں کچھ بتایئے تو۔۔۔میانوالی کسی زمانے میں ’’کچھی‘‘ کہلاتا تھا، لیکن شہر مدینہ کے رہنے والے حضرت میاں علی جب خاندان سمیت یہاں تشریف لائے تو پھر اس کا نام بدل گیا۔۔۔ میاں علی اللہ کے ولی تھے، ان کے حجرے سے ہر وقت اللہ اللہ کی صدائیں بلند ہوتی تھیں،لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگے، میاں علی نے بھی جن لوگوں کو کلمہ آتا تھا، انہیں کلمے کے مطابق زندگی گزارنے کی تبلیغ کی اور جنہیں کلمے سے واقفیت نہیں تھی، ان کے دِل کلمے کے ساتھ جوڑ دیئے۔ پسماندہ علاقے کے لوگ اپنے مسائل کے حل اور پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے میاں علی کے پاس حاضر ہونے لگے۔

میاں صاحب بھی لوگوں کو ’’دم اور دُعا‘‘ کے ذریعے ’’بامراد‘‘ کرنے لگے۔ ان کی شہرت ایسی پھیلی کہ دور دور سے آنے والے لوگوں سے جب پوچھا جاتا کہ کہاں جا رہے ہو تو وہ اعلانیہ بتاتے تھے کہ ’’میاں علی کول‘‘ اور پھر علاقائی زبان میں ’’میانوالی‘‘ کا بتاتے۔۔۔ یوں کچھی کا نام میاں علی اور پھر ’’میاں والی‘‘ پڑ گیا۔۔۔ میاں علی سید زادے تھے۔

میانوالی کے تمام بڑے بڑے قبائل ’’وتہ خیل‘‘ اور ’’بلو خیل‘‘ میاں علی کے مرید تھے اور دونوں قبائل عقیدت کے طور پر انہیں روزانہ یا ہر جمعرات کو ’’کھانا‘‘ بھجواتے تھے، جو میاں دا ’’گوگا‘‘ یعنی روٹی کے نام سے مشہور تھا، اب بھی اکثر لوگ یہ ’’گوگا‘‘ دیتے ہیں۔
انہی میاں علی کی دُعاؤں سے میانوالی کی قسمت جاگی،زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بہت نام کمایا۔۔۔ سیاست اور حکمرانی کے حوالے سے نواب آف کالا باغ نے پورے ملک میں میانوالی کا نام بلند کیا۔۔۔ جبکہ مولانا عبدالستار خان نیازی نے اسلامی نظام اور حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتے ہوئے میانوالی کا نام مزید اونچا کر دیا۔ عیسیٰ خیل کے سردار مقبول خان پہلی بار ضیاء الحق کے دور میں وفاقی وزیر بن کر نمایاں ہوئے۔

اس آمرانہ دور میں ڈاکٹر شیر افگن خان نے ضیاء الحق کے خلاف شدید تنقیدی لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے میانوالی کو سرخرو کیا۔ڈاکٹر شیر افگن کو میانوالی کے لوگ ایک عوامی لیڈرکے طور پر اب بھی یاد کرتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ میانوالی کو دوبارہ کوئی شیرافگن ابھی تک نہیں مل سکا۔ ان کے بیٹے امجد علی خان دوسری بار ایم این اے بنے ہیں، بے شک میانوالی سے مسلسل دوسری بار ایم این اے کی نشست جیتنے والے یہ پہلے آدمی ہیں مگر اپنے والد کی طرح بننے کے لئے انہیں ابھی بہت محنت کرنا پڑے گی،باوجود اس کے کہ بہت محنتی ہیں۔

شیر افگن کی خوبی یہ تھی کہ وہ میانوالی کے مسائل کے حوالے سے اپنی ہی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی ’’اُلجھ‘‘ پڑتے تھے۔بعدازاں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی میانوالی کے مسائل کے حوالے سے اُلجھتے نظر آئے۔
میانوالی کی خوش قسمتی کہ عمران خان ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ میانوالی کے لوگوں نے جتنی دُعائیں عمران خان کے وزیراعظم بننے کے لئے مانگی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اتنی دُعائیں انہوں نے اپنی اولادوں کے بہترین مستقبل کے لئے بھی نہیں مانگی ہوں گی۔گزشتہ کئی برسوں سے یہاں کے لوگ عمران خان کا ساتھ دے رہے تھے اور جہاں تک بس چلتا تھا وہ عمران خان کے لئے کوشش کرتے تھے۔عمران خان کے دھرنے ہوں یا جلسے جلوس، الیکشن کا زمانہ ہو یا کوئی بھی موقع ہو، میانوالی سے لوگوں کی کثیر تعداد ان کے ساتھ نکل پڑتی تھی۔ میانوالی کے پہلے لیڈر ہیں جو نہ صرف خود، بلکہ ان کی پارٹی کے امیدوار مسلسل یہاں سے کامیاب ہو رہے ہیں۔

عمران خان سے تو لوگوں کو بہت محبت ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ عمران خان سے ملنا بھی بہت مشکل ہے۔ یہاں میانوالی میں تو عمران خان کی رہائش گاہ بھی نہیں ہے،پھر وہ برسوں بعد میانوالی کا چکر لگاتے ہیں،لیکن اس کے باوجود یہاں کے لوگ عمران خان سے محبت کرتے ہیں۔ گزشتہ دِنوں جب وزیراعظم عمران خان نے میانوالی جانے کا اعلان کیا تو پورے میانوالی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔وزیراعظم کے استقبال کے لئے پورے ضلع میں عام لوگوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنے طور پر جلسے میں شریک ہونے کی دعوتیں دینا شروع کر دیں، کئی نوجوانوں نے تو جلسے کی خوشی میں نئے کپڑے سلوانے بھی شروع کر دیئے۔

علاقائی سطح پر جلسے کو ثقافتی رنگ دینے کے لئے کئی فن کاروں نے اپنے گیتوں کو ازسر نو ترتیب دیا،ایک بڑے گلوکار نے تو راتوں رات ’’نیا ترانہ‘‘ بھی ریکارڈ کرا لیا تاکہ جلسے میں گایا جا سکے، میرے جاننے والے کئی دوستوں نے 26،27 کی درمیانی شپ کو ’’چاند رات‘‘ کی طرح منانے کا پروگرام بنا لیا۔خود مجھے بھی دعوت دی گئی کہ مَیں بھی چاند رات کے ’’کھابوں‘‘ سے لطف اندوز ہونے کے لئے آ جاؤں۔

گویا عمران خان کی میانوالی آمد کو یادگار بنانے کے لئے ہر طرح سے عوامی انتظامات مکمل تھے، مگر اچانک اعلان ہوا کہ عمران خان کسی سیاسی جلسے سے خطاب نہیں کریں گے وہ صرف ’’نمل یونیورسٹی‘‘ جائیں گے اور وہاں طالب علموں کے ساتھ علمی گفتگو کرنے کے بعد واپس اسلام آباد چلے جائیں گے۔
مجھے نہیں معلوم کہ وزیراعظم کو عوام سے مخاطب ہونے سے کس نے روکا یا وزیراعظم نے عوام کے روبرو ہونے سے کیوں گریز کیا۔۔۔؟ مگر میرا خیال ہے کہ وزیراعظم نے ’’جلسہ‘‘ نہ کر کے میانوالی کے عوام کے ساتھ زیادتی کی ہے۔

میانوالی کے لوگ ان کے منتظر تھے۔ وہ وزیراعظم کو سننا چاہتے تھے اور جواباً میانوالی کے مسائل سے آگاہ بھی کرنا چاہئے تھا۔ میانوالی کے لوگ جاننا چاہتے تھے کہ یہاں کے مقامی لیڈر میانوالی کے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے جو کچھ ’’افواہیں‘‘ یا ’’اعلانات‘‘ کرتے پھرتے ہیں،ان میں کتنی صداقت ہے؟ کیا واقعی وزیراعظم میانوالی کے حوالے سے کوئی ’’ترقیاتی پلان‘‘ رکھتے ہیں؟ کیا واقعی میانوالی کے لوگوں کے لئے ’’آسانیاں‘‘ پیدا کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔

کیا واقعی میانوالی کے نوجوانوں کے لئے میڈیکل کالج، یونیورسٹی، اچھی نوکریاں، کیا واقعی میانوالی کی بچیوں کے لئے بھی کئی بہتر تعلیمی اداروں کا اہتمام کیا جا رہا ہے؟ یہاں کسان پُرامید تھے کہ ان کے لئے بھی آسانیاں پیدا کرنے کا اعلان کیا جائے گا۔ الغرض میانوالی کا ہر شخص پُرامید تھا کہ وزیراعظم جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بڑے بڑے اعلان کریں گے،مگر وزیراعظم کے جلسہ منسوخی کے اعلان نے سب امیدوں کو توڑ دیا ہے، بلکہ میانوالی کے ہر شخص کا دِل توڑ دیا ہے۔

میرے خیال میں وزیراعظم کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، انہیں کچھ دیر کے لئے ہی سہی میانوالی کے عوام کے ساتھ مخاطب ضرور ہونا چاہئے تھا، بے شک وہ بڑے بڑے پراجیکٹس کا اعلان نہ کرتے۔

کم از کم میانوالی کے عوام کی طرف سے جلسے کی صورت میں مبارکباد تو وصول کرتے۔۔۔وزیراعظم میانوالی آئے اور سرائیکی محاورے کی طرح ایسے آئے اور گئے کہ جیسے ’’آئے خان دے کپڑے اک دُھسّہ تے ہئی بھی‘‘۔۔۔یعنی بہت شور تھا کہ خان کے کپڑے آ رہے ہیں، مگر جب کپڑے آئے تو معلوم ہوا ایک ’’کمبل‘‘ تھا، جسے کپڑوں کا نام دیا جا رہا تھا یا اُردو میں یہ شعر:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دِل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خون نکلا

مزید :

رائے -کالم -