عمران خان پر بھروسہ کیجئے
پاکستاں میں حالیہ دنوں میں کئے گئے ایک سروے کے مُطابق اکیانوے فیصد عوام پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی مجموعی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی ہے اور اگر سچ کہوں تو میں خوُد بھی حیران ہوں۔ جیسے کہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ عمران خان ایک پیش ور سیاستدان نہیں۔ وُہ کرکٹ کی دُنیا سے سیاست میں وارد ہوئے ہیں۔ اور انہوں نے سماجی اور فلاحی کاموں سے عوامی زندگی کی ابتدا کی ہی۔ عوام سے رابطہ رکھنا اُن کے مزاج کا حصہ ہے۔ حالانکہ عوام کی خوشنودی اور بھلائی کے لئے کام کرنا ہر ایک سیاستدان کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے یہ اکثر دیکھا ہے کہ پاکستان کے سیاستدان صرف ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہی عوام کے پاس جاتے ہیں۔ عوام کو خوش کرنے کے لئے علاقوں میں چند دفتر کھول دئے جائے ہیں جو مقامی سطح پر لوگوں کے کام کروا دیتے ہیں۔ یہ کام زیادہ تر پولیس سے متعلقہ ہوتے ہیں۔ یا پھر انکا تعلق زمینوں یا آبیاری کے مسائل سے ہوتا ہے۔ سیاستدان کے نزدیک یہ بات اہم ہوتی ہے کہ علاقے میں اِس خاندان کے کتنے ووٹ ہیں اور اِن کا سیاسی اثر و رسوخ کتنا ہے؟ اُن کے کیس میں کتنا دم ہے؟ کیا وُہ اِس بات کے مستحق بھی ہیں کہ اُن کی سفارش کی جائے؟اِن تمام چیزوں کے بارے بالکل نہیں سوچا جاتا۔ اور یہی ہمارے معاشرے کا ا لمیہ ہے کہ ہم بغیر سوچے سمجھ کسی بھی محکمہ میں داخل ہو جاتے ہیں۔
سیاست میں چونکہ چوہدراہٹ ہوتی ہے اِس لئے یہ بات ہر اُس آدمی کو اچھی لگتی ہے جو خاندان میں پڑحائی لکھائی کے لئے بیکار سمجھا جاتا ہے۔
شُنید ہے کہ نواز شریف صاحب بھی اپنے گھر میں ایسی ہی شہرت رکھتے تھے۔ سُنا ہے کہ اِن کے والد نے اِن کو مصروف رکھنے کے لئے کئی پاپڑ بیلے تھے۔ تھک ہار کے انہوں نے جنرل جیلانی کے حوالے کر دیا ۔اُنہوں نے اُنکو سیاست میں جگہ اور مقام دے کر ایک نئی قسم کی سیاست کی داغ بیل ڈالی۔ چھانگا ما نگا اور مُک مکا کی سیاست کو انہوں نے ہی رواج دیا۔ موصوف کا بنیادی مقصد جائیز اور نا جائز طور پر پیسہ کمانا تھا لہذا اُنہوں ایسے افراد کو اپنے ساتھ ملا لیا جو ہوس اقتدار میں تڑپ رہے تھے۔ لہذا موصوف نے قلیل عرصہ میں خوب دولت کمائی۔ اپنوں دوستوں کو بھی موقع فراہم کیا کہ وُہ بھی لوُٹ کھسوٹ میں حصہ داربن جائیں۔ تاکہ کل کو وُہ بے وفائی کا طعنہ نہ دے سکیں۔ علاوہ ازیں، شریک جُرم ہونے کی وجہ سے مُسلم لیگ کو چھُوڑ نہ سکیں۔ اسحاق ڈار اور خواجہ برادارن جیسے منجھے ہوئے لوگ نواز شریف صاحب کو مل گئے۔ جنہوں نے پیسہ کمانے اور منی لانڈرنگ کے انمول طریقے میاں صاحب کو سکھائے۔ اُنہو ں نے اُن تما م گُرُوں سے جلد ہی استفادہ کر لیا اور دُنیا کے ہر مُلک میں انہوں نے اپنا بزنس شروع کر لیا۔ قسمت نے یاوری کی اور توقع سے زیادہ مُنافع کمایا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دوسرے تاجروں نے بزنس میں نُقصان بھی اُٹھایا۔لیکن میاں برادارن دن دوگنی اور رات چُوگنی ترقی ہی کرتے گئے۔ حتیٰ کہ اُنکے صاحبزادے چھُوٹی چھوٹی عُمروں ہی میں اربوں پتی بن گئے۔
میاں صاحب کی ذہانت کی داد نہ دینا اُن سے سراسر زیادتی ہوگی۔ اُنہو ں بہت عرصے میں بہت سارے ہمصر د وستوں کو پیداگیری میں پیچھے چھُوڑ ر دیا۔ تین مرتبہ مُلک کے وزیر اعظم رہے۔ پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ دورانِ اقتدار نہ صرف خود موج کی بلکہ دوستوں کو بھی موج مستی کروائی۔ ایسا انداز سیاست درِ یں حالات ، بہت مقبول ہُوا لیکن بد قسمتی سے مُلک مالی اعتبار سے کھوکھلا ہو گیا۔ باقی رہی سہی کسر زر داری صاحب نے پُوری کردی۔ اُن کے بارے میں مشہور تھا کہ وُہ ہر ٹھیکے کی کُل بولی کا ٹِن پر سنٹ کمشن لیتے تھے۔ مُوصوٖف کے کارناموں کی فہرست کافی لمبی ہے۔ دولت اور چالاکی میں وُہ میاں برادرز کے بھی گُرو ہیں۔ دونوں خاندانوں نے منی لانڈرنگ کے نئے نئے طریقے ایجاد کرکے کرپشن کی دُنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے۔ جو بد قسمتی سے عمران خان حاصل نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ عمران خان سیاست میں پیسہ کمانے کے لئے نہیں آئے بلکہ وُہ عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور وُہ پسے ہوئے طبقہ کے لئے بہت کُچھ کرنے کے خواہاں ہیں۔ اُنہوں نے تھوڑے عرصے میں عرب دُنیا میں اپنا ایک خاص مقام بنا لیا ہے۔ سعودی عرب، قطر اور دوبئی کے حُکمران اُن کی ہر طرح سے مدد کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ سعودی عرب نے گوادر میں آئل ریفائنری لگانے کا عندیہ دیا ہے جو اپنے حجم اور وسعت کے اعتبار سے کا فی بڑی ہوگی۔ قطر اور دوسرے ممالک بھی پاکستان کی ہر طرح سے مدد کرنے کے تیار ہیں۔ اِس قرُبت کی وجہ خان صاحب کی ایمانداری اور سادگی ہے۔ یہ لوگ عمراں ن خان میں ایک ایسا لیڈر د یکھتے ہیں جو اپنے مُلک، عوام اور برادر مُسلم ممالک کے لئے مُخلصانہ تڑپ رکھتا ہے۔ اُس کا منشاء و مقصد دولت جمع کر نا نہیں ہے۔ اِسی بات کو پاکستان کے عوام نے بھی محسوس کیا ہے ۔ اُن کے نزدیک عمران خان اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود بھی سچا ہے۔ جس لگن اور محنت سے وُہ مُلک کو مستحکم کرنے کی کوشش میں لگا ہے۔ وُہ ایک دن ضرور کامیاب ہوگا۔
مُفاد پرست ٹولے اور سیاستداں اُس میں کیڑے نکالنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ لیکن وُہ غریب عوام کی دعاؤں کی بدولت اور اخلاص کی بُنیاد پر مُلک کو سدھارے کے لئے اپنی بہترین کو ششیں کر رہا ہے۔ عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لئے ہر طرح کے گُر آزمائے جا رہے ہیں۔ اُن کو طعنے دئے جاتے ہیں کہ وُہ بھکاری کی طرح دوسرے مُلکوں سے قرضہ مانگ رہے ہیں۔ لیکن وُہ تمام طعنوں سے بے نیاز اپنی راہ پر رواں دواں ہے۔ کیونکہ اُسے اپنی عزت سے زیادہ اپنی قوم اور مُلک کی عزت عزیر ہے۔ اُس نے عوام سے چندہ جمع کرکے شوکت خانم ہسپتال بنایا۔ لوگ عمران خان کے جذبے کو سراہتے ہیں۔ اُن کو معلوم ہے کہ یہ بندہ مُلک اور قوم کی بھلائی کے لئے سب کُچھ کر رہا ہے۔ انہوں نے شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی جیسے منصوبوں کو اپنی آنکھوں سے پنپتے دیکھا ہے۔
عمران خان نے مُلک کی معاشی حالات کو سُدھرانے کے لئے سیاحت کو فروغ دینے کے لئے آزاد ویزہ پالیسی کو متعارف کروایا ہے۔ ایسی پالیسی کو متعارف کروانے کے لئے ضروری ہے کہ مُلک میں استحکام ہو اور ادروں میں باہمی اشتراک اور تعاون موجود ہو۔ فوج اور دوسرے ادارے آہستہ آہستہ عمران خان کی محب وطن کی پالیسیوں سے اتفاق کر رہے ہیں۔ اُن کو لگتا ہے کہ یہ آدمی ایک دن مُلک کو خوشحال بنانے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا۔ اب ہر کوئی یہ کریڈٹ لینے میں مصروف دکھائی دیتا ہے کہ مُلک کی معیشت کو ترقی دینے کے لئے یہ اُن کا آئیڈیا تھا۔ لیکن وُہ اپنے آئیڈیا کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر رہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ وُہ سیاست میں میں بھی کرکٹ کی طرح پاکستان کو نئی منزلوں اور کامیابیوں سے ہمکنار کریں گے۔ اُن کا انداز سیاست بھی اُنکے کھیل کی طرح جُداگانہ ہے۔ وُہ دباؤ میں بھی اچھا کھیلنا جانتے ہیں۔ یہ بات اُنھوں نے ثابت کر دی ہے۔ان پر بھروسہ کیا گیا تو قوم کو یقینی طور پر سیاستدانوں کی کرپشن سے نجات مل جائے گی ۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔