اپوزیشن کو زندہ رکھنے میں کپتان کے چوکے چھکوں کا کردار

اپوزیشن کو زندہ رکھنے میں کپتان کے چوکے چھکوں کا کردار
اپوزیشن کو زندہ رکھنے میں کپتان کے چوکے چھکوں کا کردار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پس ثابت ہوا کہ وزیر اعظم عمران خان آج بھی جب کسی جلسے یا تقریب سے خطاب کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ اب وہ اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ وزیر اعظم ہیں انہوں نے دو روز پہلے ساہیوال اور اسلام آباد میں جو خطاب کئے وہ اسی قسم کے تھے جیسے کپتان اپوزیشن لیڈر کے طور پر کیا کرتے تھے وہ آج بھی الزام لگاتے ہیں، مسائل بیان کرتے ہیں، تنقید کے نشتر چلاتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔انہیں کون بتائے کہ اب ملک کا سب سے بڑا عہدہ ان کے پاس ہے اگر خرابیاں ہیں تو انہیں دور کرنے کی سبیل نکالیں، انہیں صرف بتائیں یا گنوائیں نہیں۔ ملک کے اپوزیشن لیڈر نے نہیں بلکہ وزیراعظم نے یہ انکشاف کیا ہے کہ سینٹ الیکشن میں ریٹ لگنے لگے ہیں ملک کا چیف ایگزیکٹو جب یہ کہے تو وہ الزام نہیں ہوتا حقیقت سمجھی جاتی ہے۔ کیا کہیں سے ان کی اس بات کا کوئی ثبوت مل سکتا ہے، کوئی تصدیق ہو سکتی ہے ایسے الزامات تو ہمیشہ اپوزیشن لگاتی ہے کہ حکومت ارکانِ اسمبلی کی خریداری کر رہی ہے۔ چونکہ اپوزیشن کی بات کو صرف ایک الزام سمجھا جاتا ہے، اس لئے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، مگر عمران خان تو وزیر اعظم  ہیں وہ کن ثبوتوں کی بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک شخص سینٹ الیکشن کے لئے ارکان اسمبلی کی خریداری کر رہا ہے۔ کیا ان کی یہ بات ہمارے پورے پارلیمانی سسٹم کو بے توقیر کرنے کا  باعث نہیں بن سکتی۔ کیا ان کے اس بیان سے ان کی جماعت کے ارکان سمیت ہمارے تمام ارکان اسمبلی مشکوک نہیں ہو گئے۔ ظاہر ہے جو شخص بھی خریداری کر رہا ہے، وہ حکومتی جماعت کا تو نہیں ہو سکتا، وگرنہ تو وزیراعظم یہ نہ کہتے، وہ  اپوزیشن کا کوئی آدمی ہے تو کیا وہ حکومتی ارکان کی بولیاں لگا رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو وزیر اعظم عمران خان کو پہلے اپنی جماعت کی خبر لینی چاہئے اگر ان کے ارکانِ اسمبلی اتنے ہی کچے ہیں کہ قیمت لگنے پر اپنا نظریہ اور جماعت تک چھوڑ دیتے ہیں تو پھر انہیں یہ دعویٰ کرنا چھوڑ دینا چاہئے کہ تحریک انصاف ایک نظریاتی جماعت ہے۔


کپتان جی ابھی تک اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کی روش پر چل رہے ہیں یہ اپوزیشن لیڈر کا وطیرہ ہوتا ہے ملک کا وزیراعظم بن کر کئی باتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ سب کو یاد ہے کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو اپنے جلسوں میں مولانا فضل الرحمن کا ذکر ضرور کرتے تھے بلکہ جلسے کے خاضرین سے کہتے تھے کہ ابھی تک انہوں نے ڈیزل کا نعرہ نہیں لگایا۔ خیر یہاں تک تو معاملہ سیاسی نوعیت کا تھا۔ سیاست میں الزامات بھی لگتے ہیں اور ان کے ثبوت بھی نہیں دینے پڑتے، تاہم اقتدار میں آکر بہت کچھ بدل جاتا ہے یا بہت کچھ بدل جانا چاہئے لیکن کپتان خود کو بدلنا نہیں چاہتے، انہوں نے مولانا فضل الرحمن پر پھر تنقید کی، انہیں لوٹ مار کا بادشاہ قرار دیا اور یہ تک کہا کہ فارن فنڈنگ کیس میں مولانا فضل الرحمن کو حساب دینا پڑے گا۔ وزیراعظم کی جانب سے ایسے براہ راست تخاطب اور الزامات کا فائدہ مولانا فضل الرحمن کو ہو گا۔ ان کا وہ بیانیہ درست ثابت ہوگاکہ نیب کٹھ پتلی وزیر اعظم کے ایماء پر ان کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔ یہ بھی کہا جائے گا کہ پی ڈی ایم کی تحریک کے باعث مولانا فضل الرحمن وزیر اعظم عمران خان کے حواس پر سوار ہو چکے ہیں۔ مولانا تو پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ نیب کے نوٹسز حکومت کے ایماء پر دیئے جا رہے ہیں اس لئے وہ انہیں نہیں مانتے، وزیر اعظم کی جانب سے مولانا کو براہ راست نشانہ بنانے پر مولانا فضل الرحمن تو شیر ہو جائیں گے۔ کپتان کا یہ کہنا کہ مولانا فضل الرحمن کو مولانا نہ کہا جائے کیونکہ یہ علماء کی توہین ہے کسی اپوزیشن لیڈر کو تو زیب دیتا ہے، ملک کے وزیراعظم کے منصب سے لگا نہیں کھاتا۔


وزیر اعظم عمران خان اپنے کھلاڑی عثمان بزدار کی تعریف کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ تاہم اس تعریف کے لئے وہ جو ماحول بناتے ہیں اس پر انگلیاں اٹھتی ہیں انہوں نے لاہور میں ایک مبینہ قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن کرنے پر عثمان بزدار کی تعریف تو کی لیکن اسے جب سیاست اور نوازشریف سے جوڑ دیا تو شکوک و شبہات پیدا ہو گئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وزیر اعظم کے نزدیک قبضہ گروپ وہ ہے جسے شریف فیملی کی حمایت حاصل ہو، باقی جس کسی نے بھی قبضے کئے ہوئے ہیں، انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کل ہی اسمبلی میں محمد افضل کھوکھر ایم این اے جن کا کھوکھر محل گرا کر قبضہ لیا گیا،جس پر ہائیکورٹ نے قبضہ واپس کرنے کا حکم دیتے ہوئے ماتحت عدالت کو فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے تحریک استحقاق پیش کر کے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ اس پر ایک کمیٹی بنائی جائے وہ اپنی قانونی ملکیت کے تمام ثبوت پیش کریں گے۔ ثبوت غلط ثابت ہوئے تو ہر سزا بھگتنے کے لئے تیار ہیں میرا خیال ہے کہ یہ ان کا جائز مطالبہ ہے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ سیاسی مخالفت کی وجہ سے کسی کو انتقام کا نشانہ بنایا جائے مگر جب وزیر اعظم عمران خان خود ہی یہ فیصلہ کر دیں گے کہ وزیر اعلیٰ نے ایک بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے تو میرٹ پر انصاف کیسے ہو سکے گا۔


 کپتان کو ان کے کھلاڑیوں میں کوئی سمجھانے والا نہیں کہ جب لیڈر خود سامنے آ جائے تو باقی دفاع کرنے والے پیچھے رہ جاتے ہیں۔  وزیر اعظم ہونا کوئی معمولی بات نہیں، اگر وہ ہر معاملے میں خود آکر اپوزیشن سے توتکار کرے گا تو ملک میں سیاسی امن کیونکر بحال ہو سکے گا۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے عمران خان کا بیانیہ تو یہ ہونا چاہئے کہ میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔ یہ اداروں کا کام ہے کہ وہ قانون کے مطابق جو کارروائی کرنا چاہتے ہیں کریں جب وہ سیاسی مخالفین سے زمین کا قبضہ چھڑانے پر وزیر اعلیٰ کو شاباش دیں گے تو معاملہ قانونی کی بجائے سیاسی رنگ اختیار کر جائے گا اور جوابی کارروائی میں کبھی ان کے بنی گالا اور کبھی زمان پارک والی رہائش گاہ کی قانونی حیثیت کا ذکر آئے گا۔ جمہوریت میں اپوزیشن کی کوشش بے چینی اور انتشار پیدا کرنا اور حکومت کا اس پر پانی ڈالنا ہوتا ہے، مگر کپتان وزیر اعظم بن کر بھی پانی کی بجائے تیل ڈالتے ہیں اس لئے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے دوسرے لفظوں میں کپتان اپوزیشن کو خود اپنے چوکے چھکوں سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -