بے راہ روی کی دلدل اور اصلاحِ معاشرہ!

 بے راہ روی کی دلدل اور اصلاحِ معاشرہ!
 بے راہ روی کی دلدل اور اصلاحِ معاشرہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلامی معاشرے کی پہچان، اس کے ماحول اور وہاں بسنے والے افراد کے رویوں اور طرزِ عمل سے ہوتی ہے، جس میں اعتدال و توازن، انسانی ہمدردی، انسانی حقوق کا احترام اور ان کے جان و مال اور عزّت و عصمت کا تحفظ پایا جائے۔ اخلاقی بنیادوں پر قائم ہونے والے معاشرے کا ترقی پذیر ہونا ایک عقلی تقاضا ہے،کیونکہ  جس معاشرے میں معیشت، معاشرت اور قانون و ثقافت کی بنیاد حقوق و فرائض کی ادائیگی پر ہو گی، وہ پسماندہ، مفلس، اخلاقی بیماریوں، دھوکہ دہی ، جھوٹ، فریب، چوری، بے حیائی اور فحاشی کا مرکز نہیں ہو سکتا،لیکن بدقسمتی سے ہمیں اپنا تعلیمی نظام انگریز سامراج سے ورثے میں ملا جس کا مقصد ہی ہماری نئی نسل کو اپنے دین، تہذیب، اقدار اور اپنی تاریخ سے کاٹ کر مغرب کی نقالی کے لیے تیار کرنا تھا۔ آزادی ملنے کے باوجود اسے جاری رکھا گیا،حالانکہ ہمیں اْسے درست کر کے  اسلامی، تہذیبی، قومی اور عصری تقاضوں اور ضروریات کے مطابق ڈھالنا چاہیے تھا۔المختصر یہ کہ تعلیمی ادارے بقول مولانا ابوالااعلیٰ مودودیؒ کے تعلیم گاہوں سے زیادہ قتل گاہیں ثابت ہو رہے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم میں محض " اسلامیات " کا ایک پرچہ شامل کرنے سے کوئی بڑا جوہری فرق واقع نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا ہوسکتا ہے۔ یہ سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے کہ اگر سکول کی بارہ اور کالج کی چار سالہ تعلیم میں بمشکل روزانہ بھی اگر40، 50 منٹ کی ایک کلاس پڑھا دی جائے، جس میں روایتی طور پر چند مختصر سورتیں اور عقیدے کی تعلیم شامل ہو، تو کیا اس طرح طالب علم اسلام کی منشا اور مرضی کو سمجھ جائے گا؟ کیا اس میں نظریہئ پاکستان سے محبت بھی پیدا ہوجائے گی؟  اور کیا ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کا بے لوث جذبہ بھی اس کے دل و دماغ میں موجزن ہو جائے گا؟


نصاب میں مغرب سے مستعار لی گئی کتب جو لادینی ذہن پیدا کرتی ہیں، ہم نے ان کی متبادل کتب تیار کرنے کی کوئی فکر نہیں کی، نہ اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا وہ اہتمام کیا،جس کی ضرورت تھی نہ طلبہ و طالبات کو قرآن و سنت کے فراہم کردہ اخلاقی رویوں سے روشناس کروایا۔ صرف یہ سمجھ لیا کہ ہر پیدایشی مسلمان ایمان داری، ایفائے عہد، شرم وحیا اور صداقت و امانت پر خود بخود عمل کرنے والا بن جائے گا۔ایک غلط مفروضے پر قائم توقعات کا نتیجہ کرپشن،، دھوکا دہی، ملکی خزانے کے ناجائز استعمال کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا؟ بحیثیت قوم آج ہم یہی سب کچھ بھگت رہے ہیں۔یہی شکل ہمارے ابلاغِ عامہ کی ہے۔گذشتہ 20، 25 برسوں میں آزادیِء صحافت اور آزادیئ اظہار کے نام پر جس طرح تھوک کے بھاؤ ٹی وی چینل، کاروباری بنیادوں پر حکومت اور سرمایہ داروں کی سرپرستی میں قائم ہوئے، انہوں نے ہر جانب سے مغربی اور ہندو تہذیب وثقافت، الحاد و دہریت اور جنسی مساوات کے نام پر جنسی اخلاقیات کی پامالی کو اپنا مقصد قرار دے کر نوجوانوں کو اپنا ہدف بنایا۔ یہ صرف تفریح کے پروگراموں ہی کا خاصہ نہیں،   دْکھ تو اس بات کا ہے کہ بہت سے چینلوں پر رمضان المبارک کے دوران لڑکوں، لڑکیوں کو زرق برق ملبوسات  کے ساتھ بطور رول ماڈل پیش کیا جارہا ہے اور حکومت کے ساتھ ساتھ علماء کرام  نے بھی اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ کسی خبر نامے کو اس وقت تک مکمل نہیں سمجھا جاتا  جب تک اس میں ایک خاتون پوری زیبائش کے ساتھ خبریں نہ پڑھے۔ ڈراموں میں مرد وعورت کا آزادانہ اختلاط، جسم کے خدوخال کی نمائش اور اشتہارات میں خواتین کا تجارتی استحصال ہر ٹی وی چینل کی ضرورت بن گیا ہے۔


اس ماحول میں اگر ایک شخص خود کو پڑھا لکھا، نیم پاکستانی اور معاشرے کے اعلیٰ طبقے سے وابستہ سمجھتے ہوئے، کسی ایسے ہی طبقے کی خاتون سے غیر اخلاقی تعلقات قائم کرتا ہے اور پھر اس خاتون کو اذیت ناک طریقے سے قتل کر دیتا ہے، تو جہاں وہ خود اس گھناؤنے جرم کا ذمہ د ار ہے، وہاں دوسری طرف ان تمام عوامل پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو اس شخص کو اخلاقی بے راہ روی کی طرف مائل کرتے ہیں،یعنی تعلیم، والدین کی عدم توجہی، ابلاغِ عامہ،خصوصاً علماو مشائخ اور اساتذہ کرام کی طرف سے عصری مسائل و معاملات پر خاموشی، اسے لمحہئ فکریہ ہی کہا جا سکتا ہے۔قرآنِ کریم نے بنی اسرائیل اور نصاریٰ کی گمراہی و فحاشی میں مبتلا ہونے کا ایک سبب ان کے علماء اور راہبوں کو قرار دیا، جنہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ لوگ حرام کھا رہے ہیں، حرام کاری کا ارتکاب کررہے ہیں اور بے حیائی میں مبتلا ہیں، مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی اور اس طرح عملاً  بْرے اعمال میں ان کی مدد کی۔ یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصلاحِ احوال کیسے ممکن ہو؟…… اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اسلام ایک جامع، قابلِ عمل اور اصلاحی نظام ہونے کی بناء پر ایسے تمام مسائل کا عملی اور آزمودہ حل پیش کرتا ہے۔ ہم آج جس اخلاقی زوال اور ظلمت کا شکار ہیں، بالکل یہی صورتِ حال تھی جب اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے،

معاشرے کی تاریکی، گمراہی اور پس ماندگی کو بڑی حکمت، بصیرت اور دوراندیشی کے ساتھ ایک ایسے معاشرے میں تبدیل کر دیا، جہاں حیا، عدل، احترام،تحفظ، ترقی، فلاح و سعادت معاشرے کی پہچان بن گئی۔ اس اصلاحِ احوال میں باہمی تعاون و احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موجود ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلاشبہ اس سلسلے میں ریاست کو بھی اپنا کلیدی کردارادا کرنا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ جتنی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، اتنی ہی ذمہ داری معاشرے کے تمام کارفرما اداروں اور افراد پر بھی عائد ہوتی ہے۔من حیث القوم ہم سب کا فرض ہے کہ اس حوالے سے اپنی اپنی ذمہ داری اور کردار ادا کریں اور قومی اصلاح کے لئے ایک پالیسی مرتب کر کے اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔ آج شروع کئے ہوئے اس عمل کے ثمرات 15، 20 سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔  اس طرح رفتہ رفتہ بے راہ روی کی اس دلدل سے نکل کر یہ معاشرہ  ترقی و خوشحالی کی منازل سے ہمکنار ہو گا۔

مزید :

رائے -کالم -