سچ کیا ہے؟ 

سچ کیا ہے؟ 
سچ کیا ہے؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیر اعظم عمران خان نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے ملک سے کرپشن اپنے اقتدار کے پہلے 90 دن میں ہی ختم کر دی تھی۔ سمجھ نہیں آتی کہ 22 کروڑ پاکستانیوں کو مبارکباد پیش کی جائے یا اظہار افسوس کیا جائے۔ دونوں صورتوں میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پر مسلط کئے گئے وزیر اعظم اور گوئیبلز اکیڈمی سے فارغ التحصیل وزیروں کو بھی ساڑھے تین سال تک پتہ نہیں چلا تھا کہ ملک سے کرپشن تو تین سال پہلے ختم ہو چکی تھی۔ یہ تو بھلا ہو کہ اچانک ایک دن وزیر اعظم پر روحانی وجد طاری ہوا تو ان پر منکشف ہوا کہ وہ یہ کارنامہ تو حکومت کے پہلے 90 دن میں ہی انجام دے چکے ہیں۔ شکر ہے کہ عمران خان نے ناشکرے عوام کو برا بھلا نہیں کہا جنہیں ابھی تک احساس ہی نہیں ہوا ہے کہ اب ملک میں کرپشن کا کوئی وجود باقی نہیں ہے، تھانے اور کچہریوں میں بغیر رشوت کے کام ہو رہے ہیں، بجلی گیس کے کنکشن فوری لگ رہے ہیں۔ وزیروں نے اپنے دفتروں کے باہر زنجیر عدل لٹکا دی ہے کہ جو چاہے اسے کھینچ کر اپنا مسئلہ بیان کرے لیکن ملک میں کرپشن نہ ہونے کی وجہ سے اب کسی کو کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا اس لئے مہینوں گزر جاتے ہیں اور کوئی سائل زنجیر نہیں کھینچتا۔ ملک میں کرپشن ختم ہونے کی وجہ سے عمران خان کو عوام کے سروں پر مسلط کرنے والے سلیکٹر انتہائی خوش ہیں کیونکہ بائیس کروڑ عوام انہیں جھولیاں پھیلا کر رات دن دعائیں دیتے ہیں۔ 


میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ملک سے کرپشن ختم ہونے پر عوام کو مبارکباد پیش کروں یا ان سے اظہار افسوس کروں۔ ظاہر ہے اگر ملک سے کرپشن ختم ہو گئی ہے تو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دینی چاہئے لیکن پھر بھی مجھے بار بار اظہار افسوس کو دل  چاہتا ہے کہ ہمارے لوگ اس قدر بے خبر اور بے قدر ہیں کہ تین سال سے زیادہ گذر گئے اور انہیں ابھی تک پتہ ہی نہیں چل سکا کہ ملک سے کرپشن ختم ہو چکی ہے۔ لوگوں کی نا قدری کا یہ عالم ہے کہ ہر وقت شکائیتوں کے انبار لئے پھرتے ہیں۔ پنجاب میں چھوٹے بڑے سرکاری افسروں کی ٹرانسفر پوسٹنگز  لاکھوں روپے میں بیچنے کے قصے عام مشہور ہیں اور سب سے زیادہ نام صوبہ کے چیف ایگزیکٹو اور ان کے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے جاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ سب سے زیادہ آفت تو پولیس اور انتظامیہ کی پوسٹوں پر آتی ہے جہاں تمام پوسٹوں پر ہر دوسرے تیسرے مہینے صوبے کے ایک کونے سے دوسرے تک تبادلے ہوتے ہیں۔ جو افسر جس سیٹ پر بیٹھتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بہت رقم خرچ کرکے یہ سیٹ لی ہے چنانچہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دو تین مہینہ کے اندر اپنی خرچ کردہ رقم بھاری منافع کے ساتھ کما لے، اس لئے صحیح یا غلط‘ لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ رشوت کے ریٹ کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ محکمہ مال، خوراک، صحت اور تعلیم وغیرہ کے بارے میں بھی یہی باتیں مشہور ہیں۔ پنجاب کی طرح دوسرے صوبوں میں یہی کہانیاں اور یہی تاثر ات عام ہیں۔ وفاق کے کچھ وزیروں کے بارے میں بھی عجیب عجیب کہانیاں مشہور ہیں کہ کس طرح انہوں نے پچھلے تین سال میں بار بار اربوں کی دہاڑیاں لگائی ہیں۔ اگر ملک سے کرپشن پہلے 90 دن میں ختم ہو گئی تھی تو ظاہر ہے زبان زد عام یہ کہانیاں غلط ہوں گی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یقینا مجھے 22 کروڑ عوام کو مبارکباد دینی چاہئے لیکن کبھی کبھی جو اظہار افسوس کو دل کرتا ہے اس کی وجہ یہ خیال ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا ملک گوئیبلز کے پیروکاروں کے ہتھے چڑھ چکا ہے اور وہ اس کی تعلیمات پر اس سے بھی زیادہ عمل کر رہے ہیں کہ اتنا جھوٹ بولو اور رات دن بغیرکسی بریک کے بولتے رہو کہ لوگ اسے سچ سمجھنا شروع کر دیں۔ 


مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے بڑے پراپیگنڈا منسٹر کی یہ بات مان کیوں نہیں لیتے کہ عوام پہلے سے زیادہ خوش حال ہو گئے ہیں۔ کہنے کو ہٹلر نے الیکشن جیت کر حکومت بنائی تھی لیکن حکومت ملتے ہی اس نے آمروں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اور پورے ملک میں فسطائیت کا ایسا نظام قائم کر دیا تھاجس کی تفصیل پڑھ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ مزے کی بات ہے ہٹلر کو یہ سب کرنے کی چھوٹ اس لئے ملی ہوئی تھی کہ اس زمانے کے جرمنی میں بھی اسے سلیکٹروں کی بھرپور حمائت اور پشت پناہی حاصل تھی۔ اس سارے کام میں ہٹلر کا سب سے بڑا ہتھیار پراپیگنڈا تھا۔ اس نے انفارمیشن منسٹری کا نام باقاعدہ طور پر پراپیگنڈا منسٹری رکھ دیا تھا اور جوزف گوئیبلز کو پراپیگنڈا منسٹر بنایا جس نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے فن پراپیگنڈا کو چار چاند لگا دئیے۔ گوئیبلز کی ہمسری تو شائد کوئی نہ کر سکے اور بلا شبہ وہ قیامت تک اس فن کے امام رہیں گے لیکن چھوٹے موٹے گوئیبلز آتے جاتے رہیں گے۔ جب ہمارے وزیر صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ لوگوں کی آمدنی 37 فیصدیا کسانوں کی آمدنی 44 فیصد بڑھ گئی ہے تو وہ اسی فن کا ایک ادنی سا نمونہ پیش کرتے ہیں۔

ہمارے دو وزیر ایسے ہی جو اگرچہ پیشہ ورانہ معاملات میں زیادہ مہارت نہیں رکھتے لیکن فن پراپیگنڈا میں گوئیبلز اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہیں اور اسی لئے انہیں منصوبہ بندی اور خزانہ کی وزارتیں دی گئی ہیں جو رات دن جھوٹے اعدادو شمار پھیلا کر عوام کا حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں۔ اگرچہ ان کی بتائی ہوئی ترقی کی شرح 5.4 فیصد کو عالمی مالیاتی ادارے جھوٹ سمجھتے ہیں لیکن گوئیبلز کی تعلیمات بھی تو یہی تھیں کہ لوگ جو مرضی سمجھتے یا بھگتتے رہیں، اتنا جھوٹ بولیں کہ لوگ سچ سمجھنا شروع کر دیں۔خزانہ والے گوئیبلز کا تازہ ترین ارشاد یہ ہے کہ اگلے تین ماہ میں مہنگائی تو کم نہیں کریں گے لیکن تنخواہ دار اور مڈل کلاس طبقوں کی آمدنی میں بہت اضافہ کر دیں گے۔ میں نے شروع میں لکھا تھا کہ سمجھ نہیں آتی کہ عوام کو مبارکباد دوں یا اظہار افسوس کروں تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مجھے واقعی سمجھ نہیں آ رہی کہ دماغی معائینہ کی ضرورت کئی کروڑ بھوکے اور بے روزگاری کا شکار عوام کو ہے یا ملک پر مسلط کئے گئے چھوٹے بڑے گوئیبلز کو۔ 

مزید :

رائے -کالم -