من میں آزاد وطن کی ایک آس لگائے وہ بس چلتے ہی چلے جارہے تھے
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:4
یہ غالباً 1951ءکے وسط کی بات ہے جب میرے والد ہمیں گاؤں سے ہجرت کروا کر کراچی لے آئے تھے ۔ یہاں آنے سے کچھ ہی دن پہلے میرے گاؤں والے اسکول کے استاد نے بڑے فخر سے مجھے بتایا تھا کہ میں نے پہلی جما عت پاس کرلی ہے اور اب دوسری میں”چڑھ“ گیا ہوں۔ ابھی اپنی اس عظیم کامیابی پر میں اچھی طرح خوش بھی نہ ہو سکا تھا، کہ ہماری کراچی روانگی کا پروانہ آن پہنچا ۔
میرے ابا جان کا تعلق فوج سے تھا۔ جنگ عظیم دوم کے دوران انہوں نے چھاتہ بردار دستے میں شمولیت اختیار کی تھی اور اسی حیثیت میں وہ برما کے خوفناک جنگلوں میں چھاپہ مار کارروائیوں میں حصہ بھی لیتے رہے ۔ جنگ کے خاتمے پر ان کو دہلی میں متعین ایک بکتر بند رجمنٹ میں بھیج دیا گیا جہاں سے ان کے لمبے قد ، کسرتی جسم کے علاوہ گوریلا ٹریننگ کی وجہ سے ان کا تبادلہ اسی رجمنٹ کے اس ذیلی دستے میں کر دیا گیا جو وائسرائے ہند کے ذاتی حفاظتی دستے کے فرائض انجام دیتا تھا۔ اسی مناسبت سے ان کی یونٹ کو ”وائسرائے باڈی گارڈز“ کہا جاتا تھا ۔
میرے ابا جان اسی یونٹ میں ایک سپاہی تھے ۔عام دنوں میں وہ اپنی معمول کی فوجی سرگرمیوں میں مصروف رہتے، تاہم سرکاری تقاریب میں وہ اپنا خوبصورت سرخ لباس پہنتے اور وائسرائے صاحب کی بگھی کے ساتھ ساتھ گھڑ سواری کرتے ہوئے چلا کرتے تھے ۔ تقسیم ہند کے وقت ان کو دوبارہ اپنی بکتر بند رجمنٹ میں واپس بلا لیا گیا کیونکہ اب اس یونٹ کا بٹوارا ہونے جا رہا تھا اور یہ طے پایا تھا کہ یونٹ کے مسلمان ملازمین کو اب پاکستان بھیج دیا جائے ، لیکن یہ بھی ان کی صوابدیدپر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اگر ہندوستان ہی میںاپنی ملازمت جاری رکھنا چاہتے ہیں تو وہ یہاں ٹھہر سکتے ہیں۔تاہم، تقریباً سارے ہی مسلمان افسروں، سپاہیوں اور دوسرے ملازمین نے پاکستان جانے کو ترجیح دی او ر یوں ان کا تبادلہ کراچی کر دیا گیا ۔
چنانچہ میرے ابا جان کی ڈیوٹی اسی یونٹ کے ایک ایسے دستے میں لگائی گئی جس کو پاکستان کے حصے میں آنے والے درجن بھر فرسودہ سے ٹینک اور کچھ بکتربند گاڑیاں دہلی سے سڑک کے راستے چلا کر کراچی پہنچانا تھیں ۔اس طویل اور تھکا دینے والے سفر کے دوران ان کو پنجاب کے ان دیہاتی علاقوںسے بھی گزرنا تھا جہاں ان دنوں بڑا خون خرابا ہو رہا تھا اور لاکھوں مسلمان ایک تکلیف دہ ہجرت کے عمل سے گزر کر پاکستان کی طرف سفر کر رہے تھے ۔اس اذیت ناک سفر کے دوران ان پر سکھوں اور ہندوﺅں کے مسلح جتھے بار بار حملہ کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ مالی اور جانی نقصان پہنچا کر بھاگ جاتے اور جاتے وقت قافلے میں سے نوجوان لڑکیوںاور عورتوں کو بھی ساتھ اٹھا کر لے جاتے تھے۔
قافلے کے باقی ماندہ لٹے پٹے مسافر جو ان حملوں کے دوران جان بچانے کی خاطر منتشر ہو جاتے اور ادھر اُدھر فصلوں میں چھپ جاتے تھے ، ایک بار پھر مجتمع ہوتے اور اپنے شہادت پاجانے والے ساتھیوں کو وہیں چھوڑ کر زخمیوں اور ضعیفوں کو کندھوں پر اٹھائے ایک ایسی منزل کی طرف سفر جاری رکھتے جہاں انھوں نے اپنے لیے ایک نئے وطن اور اپنے سکون اور سلامتی کی خاطر پہنچنا تھا ۔ ان کی آنکھوں میں امید کی شمع تو ر وشن تھی مگر غیر واضح مستقبل کا خوف بھی ستاتا تھا ۔ من میں آزاد وطن کی ایک آس لگائے وہ بس چلتے ہی چلے جارہے تھے۔ اغوا ءہو جانے والی نوجوان لڑکیوں کے والدین غم سے نڈھال تھے اور رو رو کر اپنے آنسو خشک کر بیٹھے تھے۔جانے والیوں کو رب کے حوالے کرکے اور بچ جانے والی خواتین کو درندوں سے چھپا اور بچا کر تھکے تھکے قدموں سے آگے بڑھتے تھے۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )