ٹریڈنگ کارپوریشن میں اربوں روپے کا غبن
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) میں گندم اور چینی سمیت مختلف اشیاءکے سودوں میں کروڑوں روپے کا غبن اور بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں.... ملک میں کرپشن کا جوکلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور جس کے کم ہونے کے امکانات فی الحال دور دور تک نظر نہیں آتے، ٹی سی پی میں اربوں روپے کے غبن کی یہ واردات بھی اسی کلچر کا حصہ ہے۔ جتنے بڑے سودے اور جتنے بڑے میگا پراجیکٹ ہوتے ہیں، ان میں کرپشن کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوتاہے۔ ٹی سی پی میں غبن کا انکشاف آڈٹ حکام نے کیاہے لیکن لگتا ہے کہ معاملہ انکشاف سے آگے نہیں بڑھے گا۔کوئی تحقیقات نہیں ہوگی، اگر ہوگی تو گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑی جائے گی۔ ملک کی بڑی بڑی کارپوریشنیں اور بڑے بڑے ادارے کرپشن کے ایسے ہی سکینڈلوں کی زد میں ہیں۔ چند روز پہلے وفاقی وزیر چودھری احمد مختار نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پی آئی اے میں اتنی کرپشن ہے کہ اس کا تصور بھی محال ہے۔ چودھری صاحب طویل عرصے تک وزیر دفاع رہے ہیں اور بلحاظِ عہدہ پی آئی اے کے امور کے انچارج تھے۔ اس لئے وہ اگر کرپشن کی بات کرتے ہیں تو ان کی بات کوآسانی سے جھٹلایا نہیں جاسکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا محض کرپشن کی نشاندہی کافی ہے یا اس سے آگے بڑھ کر بھی کوئی قدم اٹھانا چاہئے؟ آڈٹ حکام نے ٹی سی پی میں جس کرپشن کی نشاندہی کی ہے، ضروری ہے کہ اس کی شفاف تحقیقات کی جائے اور ذمہ دار حضرات کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جہاں کرپشن کرنے والے بااثر اور آزاد ہوں اور تعداد میں بھی زیادہ ہوں، وہاں بے اثر اور تھوڑے لوگ ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ اصل ضرورت یہ ہے کہ بدعنوان عناصر پر مضبوط ہاتھ ڈالا جائے اور ان کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔