’’وقت کی آواز سنئے‘‘

’’وقت کی آواز سنئے‘‘
 ’’وقت کی آواز سنئے‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک دم مون سون کی بارشوں نے اور چترال کی طرف گلیشیئرز کے پگھلنے سے دریاؤں، پہاڑی ندی نالوں میں طغیانی سی آ گئی جو ماضی کی طرح بے شمار دیہات کو بہا لے گئی۔ پکی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ مکان گر گئے۔ ڈھور ڈنگڑ پانی میں بہہ گئے تو گھروں کا سامان راشن وغیرہ کہاں بچا ہوگا۔ شہروں میں سڑکیں اور گلیاں پانی سے لبالب بھری نظر آ رہی ہیں۔ بارشوں کا پانی سیوریج کے پانی کے اشتراک سے گھروں میں داخل ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں بلکہ پچھلے کئی سال سے ایسے ہی ہوتا آ رہا ہے۔ حکومتی قیادت نقصان کا اندازہ لگانے کے لئے ہوائی سفر کا سہارا لیتی ہے۔ باقی تمام وزیر مشیر خواہ وہ حکومتی ہوں یا اپوزیشن کے رہنما، سب ٹوٹے ہوئے رکاوٹی بندوں پر پجارو کشتی یا پھر محلوں میں فل بوٹ پہنے ہوئے فوٹو بنوا کر نقصان کا اندازہ لگاتے ہیں۔
کئی متعلقہ اداروں کے افسران بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ وہ اپنے اپنے وزرا کے آگے پیچھے نظر آتے ہیں۔ نقصانات کا تخمینہ لگا کر متعلقہ اداروں کو رقوم بتا دی جاتی ہیں اور پھر متعلقہ لوگوں کے نقصانات کو پورا کرنے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دیتے ہیں۔ کیسے اور کیوں، اس کا ذکر کیا کرنا۔ آپ سب کے ذہنوں میں ضرور یہ سوال ہوگا کیا ہم ان سالانہ آفتوں کا وقت سے پہلے تدارک نہیں کر سکتے؟ جبکہ ان تمام کاموں کے لئے متعلقہ ادارے موجود ہیں اور بفضل خدا اس ملک میں حقیقتاً بہت ٹیلنٹڈڈ لوگ موجود ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ناگہانی آفتوں کے مقابلے کے لئے کچھ ایسا کر جائیں کہ بارشیں زیادہ ہوںیا گلیشیئرز پگھلیں آبی ذخائر پہلے سے اس زائد پانی کا انتظار کر رہے ہوں اور ایسے محسوس ہو کہ کچھ برا نہیں ہوا بلکہ نئے اور پرانے ڈیموں میں پانی بھر گیا ہے۔


نئے آبی ذخیروں کے لئے بنائی ہوئی جھیلوں میں سما گیا ہے اور وہ کھالوں اور پکے نالوں کے ذریعے دور دور تک زمینوں کو سیراب کرنے کے کام آتا رہے گا۔ ان مستقل مصیبتوں سے جتنی جلد چھٹکارا حاصل کیا جائے ملک اور قوم کے لئے بہتر ہوگا۔ جو پیسہ نقصانات پورا کرنے پر خرچ کرتے ہیں، کیا اُسی سے یا کچھ زائد سے کچھ چھوٹے ڈیم اور کچھ آبی ذخائر کے لئے جھیلیں نہیں بن سکتیں؟ تاکہ زمینوں کو پانی کی کمی کا سامنا بھی نہ ہو اور لوگ بھی سکون سے زندگی گزار سکیں۔ ارباب اختیار کوشش ضرور کریں اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں انشاء اللہ ضرور بہتری آئے گی۔
’’شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات‘‘

مزید :

کالم -