پسنی کا ساحل بنا شہر کا کچرہ دان

پسنی کا ساحل بنا شہر کا کچرہ دان
پسنی کا ساحل بنا شہر کا کچرہ دان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

موسمی تغیرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے مکران کے حساس ساحلی علاقوں پر کافی اثرات مرتب کئے ہیں.سمندری درجہ حرارت بڑھنے کا اثر اس سال مکرانی ساحلی علاقوں میں بھی پڑاہے اور موسم گرما میں مکران کے ساحلی علاقوں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو ماہرین کلائمٹ چینج اور موسمی تغیرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے جوڑ رہے ہیں.
ایک طرف قدرتی طور پر موسمی تبدیلیوں کے اثرات ساحل مکران اور یہاں کے مکینوں پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں تو دوسری طرف مقامی لوگوں اور ماہی گیروں کی جانب سے ساحلی علاقوں کی صفائی پر توجہ دینے کی بجائے ساحل کی گندگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں. مکران کے ساحلی شہر پسنی میں تو ساحل کو گندہ کرنے کا بیڑا بلدیہ پسنی نے اٹھایا ہے جس کی ذمہ داری شہر کو صاف ستھرا رکھنا ہے مگر وہ شہر کا کوڑا کرکٹ کو ڈمپ کرنے کی بجائے ساحل پر جمع کررہا ہے.جس سے پسنی کا ساحل گندہ ہونے کے ساتھ ساتھ سمندری مخلوقات کی کئی نسلوں کے معدوم ہونے کا خدشہ ہے.
کراچی یونیورسٹی میں انسٹیٹویٹ آف میرین سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر شعیب کیانی پلاسٹک کے تھیلوں کی نقصانات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں آلودگی کے حوالے سے جتنی ریسرچ ہورہی ہے ان میں سب سے زیادہ فوکس پلاسٹک کے تھیلوں پر کیا جارہا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ ساحل پر پڑے رہنے سے سمندری مخلوق کے لئے نقصان دہ ہیں. پلاسٹک بیگ کے ذرات ان مائیکرو سمندری مخلوقات( جو کہ خوردبین کے بغیر نظر نہیں آتے)کے لئے کافی خطرناک ہے.اور انہی مخلوقات کی وجہ سے سمندر کا پورا نظام قائم ہے. شعیب کیانی مزید بتاتے ہیں کہ پلاسٹک کے تھیلے آبی پرندوں.کچھوے.ڈولفن اور شارک وھیل کے لئے بھی خطرے کا باعث ہیں جو ان پلاسٹک کے تھیلوں کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور انکی موت ہوتی ہے. وہ کہتے ہیں کہ دنیا کے بعض ممالک میں ریسرچ کرنے سے ڈولفن اور شارک وھیل کے پیٹ سے سات سے آٹھ کلو وزنی پلاسٹک کے بیگ نکلے ہیں.انکی موت کا وجہ تعین کرنے سے معلوم ہوا کہ پلاسٹک کے تھیلوں نے معدے کو بلاک کردیا ہے اور اسی طرح پلاسٹک کے ذخیروں سے آبی پرندے پھنس جاتے ہیں .وہ کہتے ہیں کہ ساحلی کنارے آباد لوگوں کو سائنسی بنیادوں سے پلاسٹک کے تھیلوں کے نقصانات پر آگہی دینے کی ضرورت ہے. ان کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے تھیلوں کی جگہ کپڑے کے ماحول دوستانہ بیگ استعمال کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ ماحولیاتی آلودگی کا سب سے زیادہ نقصان ون ٹائم یوز ہونے والے پلاسٹک کے تھیلوں سے ہوتا ہے۔۔۔..
مکران کے ساحلی علاقوں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق 8سے دس لاکھ افراد کا ذریعہ معاش سمندر سے منسلک ہے.مگر عجیب اتفاق ہے کہ نہ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے اقدامات کئے جارہے ہیں اور نہ ہی ماہی گیر اور اس سے ملحقہ بزنس طبقے کو ساحل کی صفائی کا خیال آتا ہے..سمندر میں ڈیزل کی ترسیل اور لانچ مالکان تبدیل شدہ آئل کو سمندر میں پھینکنے سے سمندری مخلومات کی نسل پر اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ڈیزل کی ترسیل سے ساحل کے کنارے شکار کئے گئے مچھلیوں کی مردہ حالات میں پایا جانا اور مچھیلوں میں ڈیزل کی بو آنے سے نہ صرف سمندری مخلوقات کی نسل معدوم ہورہی ہے بلکہ اس سے انسانی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہیہیں.
رائٹر اور سوشل ایکٹیوٹسٹ گلزار گچکی اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں کہ پلاسٹک کی بوتل اور جال پانی میں حل نہیں ہوتے .کچھوے کی خوراک چونکہ جیلی فش ہوتی ہے اور ساحل پر پڑے پلاسٹک کے تھیلوں کو کچھوے جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں جو کہ ان کے گلے میں پھنس جانے سے موت کا پھندابن جاتے ہیں جبکہ پلاسٹک کے جالوں میں کچھوے اور دیگر سمندری مخلوق بھی پھنس جاتے ہیں اور بحری حیات کو نقصان ہورہا ہے. ان کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کے فاضل مواد.پلاسٹک کے تھیلے سمندر اور سمندری حیات کو نقصان پہنچا رہے ہیں مکران کے ساحلی علاقوں میں زیادہ تر فش کمپنیاں ساحل کے قریب بنائے گئے ہیں مگر اکثر کمپنیا ں ماحولیات کے اصولوں کی دھجیاں اڑارہی ہیں.
حیاتیات کے ماہر عبدالرحیم بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر پلاسٹک کی بوتلوں اور دیگر فاضل مواد کو پراپر طریقے سے ضائع نہیں کیا گیا تو یہ سمندر کے اندر پہنچ کر ایکو سسٹم کو تباہ کرتے ہیں.ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اس حوالے سے آگہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ پلاسٹک
سے بنے اشیا کا کم اسعمال کریں یا اس کے نعم البدل اشیا کا استعمال کریں.کیونکہ دھوپ اور سمندر کے نمکین پانی سے پلاسٹک ٹوٹ کر ذرات میں تبدیل ہوجاتا ہے تو انھیں سمندری جانور کھاتے ہیں اور یہ خوراک کے سلسلے میں داخل ہوجاتے ہیں .جبکہ پسنی کے ساحل قریب بلدیہ پسنی شہر کے کچرہ کو پھینک کر رہی سہی کسر کو پورا کررہی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے بلکہ خوبصورت ساحل کو گندہ کیا جارہا ہے اور ساحل کو ایک کچرہ دان بنایا جارہا ہے
کچروں سے چیزوں کو اکٹھا کرتے ایک ماہی گیر سے میں نے پوچھا تو وہ بے بسی کے عالم میں بتانے لگا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ہم سمندری حیات کی اہمیت کے بارے میں بھی آگاہ نہیں ہیں .یہ حقیقت ہے کہ مائیگیروں کو میرین لائف پر آگہی نہیں ہے .

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -