ڈاکٹر آصف جاہ کا سفر حج
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایک خوفناک حادثے میں شدید زخمی ہونے کے بعد ڈاکٹر آصف جاہ تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔قوی امیدہے کہ اگلے چند روز میں وہ اپنی سرکاری مصروفیات کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت کا سفر بھی از سر نو شروع کر دینگے،کام تو وہ اس وقت پلاسٹر چڑھی ٹانگ کے ساتھ گھر بیٹھ کربھی کررہے ہیں۔میز پر رکھے لیپ ٹاپ کے ذریعے آن لائن سرگرمیاں جاری ہیں۔دوستوں اور چاہنے والوں کو مکمل تسلی تب ہی ہوگی جب ڈاکٹر صاحب خود فیلڈ میں آ جائیں گے۔ چند ہفتے قبل پیش آنے والے حادثے کی تفصیلات بیان کرتے ہیں کہ اسلام آباد سے لاہور آتے ہوئے موٹروے پر نماز مغرب کا وقت ہو گیا۔سکھیکھی سے کچھ آگے ریسٹ ایریا میں گاڑی رکوائی تو 10دیگرمسافر بھی گاڑیاں روک کرنماز کی تیاری کررہے تھے۔سب نے ڈاکٹر صاحب کی امامت میں نماز ادا کی۔سفرکا اگلا مرحلہ شروع ہوا تو کار میں بیٹھتے ہی ڈاکٹر صاحب کی آنکھ لگ گئی۔پھر اچانک ایک زوردار دھماکے سے انکی آنکھ کھلی تو خود کو گاڑی سے باہر پایا۔انہیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے اٹھا کر باہر زمین پر بٹھا دیا ہو۔ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے سر اور ٹانگوں سمیت پورے جسم پر خطرناک زخم آنے کے باوجود حواس بحال رکھے اور مدد کرنے والے لوگوں کو دیگر زخمیوں کے بارے میں ہدایات دیتے رہے۔اس حادثے میں کئی گاڑیاں اوپر تلے ایک دوسرے سے ٹکرا چکی تھیں۔لا قانونیت اور لا پرائی کا سنگین مظاہرہ اس حادثے کا سبب بنا،کسی نے تمام تر پابندیوں کو روند کر اپنی فصل کا ٹے جانے کے بعد باقی بھوسے وغیرہ کو آگ لگا رکھی تھی۔
دھوئیں کی دبینر تہہ نے موٹر وے کے ایک حصے کو اپنے اندر نگل کر آتے جاتے مسافروں کی بصارت کو ختم کردیا تھا۔اس حادثے میں ایک یا دو اموات ہوئیں،کئی افراد شدید زخمی ہوئے۔درجنوں گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ڈاکٹر آصف محمود جا ہ کو 1122کے ذریعے پہلے جناح ہسپتال اور پھر تشویشناک حالت کے پیش نظر میو ہسپتال میں منتقل کردیا گیا۔ حادثے کی اطلاع ملتے ہی ڈاکٹر صاحب کے چاہنے والوں جن میں خود انکے اپنے کسٹم ڈیپارٹمنٹ کے لوگ،شعبہ طب،میڈیاوالوں،بزنس کمیونٹی،سول سوسائٹی، دینی حلقوں، شاعر،ادیب، مصنفین،بیورو کریسی،سماجی کارکنوں غرض کہ ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں میں بے چینی کی لہردوڑ گئی،سب ہسپتال میں رابطے کر رہے تھے اور ادھر سے یہی جواب تھا کہ ڈاکٹر صاحب وینٹی لیٹر پر ہیں بس دعا فرمائیں۔اسی اثنا ء میں ایک نہ دو، سو نہ ہزاربلکہ لاکھوں ہاتھ بارگاہ خداوندی میں گڑگڑا کر ڈاکٹر صاحب کی زندگی کی دعائیں کرنے لگے۔ایک عرصہ ہوا ڈاکٹرصاحب کی سماجی خدمات کا دائرہ بین الاقوامی سطح تک پھیل چکا ہے۔پھر یوں لگا کہ جیسے دعاؤں کے حصارنے بلا ٹال دی۔ہسپتال میں علا ج کے دوران تین مواقع پر ڈاکٹر صاحب کی حالت بہت زیادہ بگڑی۔ایک موقع پر وینٹی لیٹر بجلی کی کمی بیشی کے باعث اڑ گیا۔پھر حرکت قلب بند ہوتے ہوتے بچ گئی۔
طویل آپریشن مکمل ہوا تو معالجین کو پتہ چلا کہ پیٹ میں آنے والا خون خطرہ بن کر منڈلا رہا ہے۔اللہ تعالیٰ کا کرم شامل حال رہا اور ڈاکٹر صاحب ان تمام جان لیوا مراحل سے نکل کر گھر آ گئے۔اپنی ذات میں انجمن ڈاکٹر آصف جاہ کو نئی زندگی دے کر قدرت نے آشکار کیا کہ ابھی انسانیت کو انکی بے لوث خدمات کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ڈاکٹر آصف جاہ کی عیادت کے لیے انکے گھر گیا تو انہوں نے اپنی نئی تصنیف”رب رحمان کے مہمان“ عنایت کی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب میں خاکسار کا تذکرہ بھی ہے۔یہ سفر نامہ 2019ء کے حج کے بارے میں ہے جسے ادا کرنے کی سعادت مجھے بھی نصیب ہوئی۔دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ288صفحات کی یہ نہایت خوبصورت کتاب اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ ا للہ اور اسکے رسول ؐسے محبت کرنے والوں کوحج جیسے عظیم فریضے کی ادائیگی کیلئے حجاز مقدس جانے کا شرف حاصل ہوتو انکے احساسات کیسے ہوتے ہیں۔یہ کتاب گھر کے تمام افراد کو پڑھنی چاہیے۔2019ء کے حج کا ایک دلکش پہلو رکن اعظم میدان عرفات میں باران رحمت کا ٹوٹ کر نزول تھا۔اسی حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی اس تصنیف کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔”خطبہ حج سننے،ظہر اور عصر کی نماز پڑھنے کے بعد اللہ سے دعائیں کر کے اور نوافل ادا کرکے نوید صاحب کے ساتھ مسجد نمرہ سے باہر نکلے۔سورج آگ برسا رہا تھا۔ایک گرمی دوسرے لاکھوں انسانوں کا مجمع۔دھوپ بھی تھی،حبس بھی تھا۔مسجد میں ACچل رہے تھے مگر جوں ہی باہر نکلے تو تیز دھوپ نے استقبال کیا۔
حبس اور گرمی کی وجہ سے سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا۔مسجد نمرہ سے نکلنے کے بعد 15منٹ میں ہی پسینے میں شرابور ہو گئے۔سانس گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔سڑک پر کنٹینروں میں کھانا،جوس اور ٹھنڈا پانی تقسیم ہو رہا تھا۔گرمی کی حدت میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔اللہ کے بندے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اللہ سے مغفر ت مانگ رہے اور رورہے تھے۔چیخیں مار مار کر گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے۔اللہ کو منا رہے تھے یا اللہ!مان جا،یا اللہ! معاف کردے۔یاا للہ! غلطیاں معاف کردے۔ پہاڑوں پر میدانوں میں سڑکوں پہ پسینہ میں شرابور لوگ روتے جا رہے تھے۔اللہ سے مغفرت مانگ رہے تھے،اچانک معجزہ ہو گیا۔ اللہ آسمانوں سے اتر آیا۔فرشتوں کی فوج ظفر موج ساتھ ہے۔ اللہ نے فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی کہ میرے بندے اتنی گرمی میں دھوپ میں میری ثناء کر رہے ہیں۔مجھ سے مغفرت مانگ رہے ہیں۔فرشتو!تم گواہ رہنا۔میں نے ان سب کو معا ف کر دیا ہے اور ان پر جنت واجب کر دی ہے۔اسی اثناء میں اللہ بادلوں کو حکم دیتا ہے۔آسمان صاف ہے،مطلع بالکل صاف ہے۔بارش کے دور دور تک کوئی آثار نہیں۔اچانک جبل رحمت کے اوپر سے بادل آنا شروع ہوئے۔شروع میں تیز ہوا کے جھکڑ چلے۔آہستہ آہستہ آسمان ابر آلود ہو گیا۔تیز ہوا چلنے لگی۔
ہلکی ہلکی پھوار شروع ہو گئی۔مسجد سے نوید کے ساتھ اپنا خیمہ ڈھونڈنے نکلاتھا۔10منٹ میں ہی موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔جل تھل ایک ہو گیا۔ندی نالے بہنے لگے۔خیمے اڑ گئے۔انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔چھتریاں اڑ گئیں۔عارضی طور پر بنے ہوئے خیمے کچے گھروندوں کی طرح زمین پر آ رہے۔راستہ مل نہ رہا تھا۔بارش تیز سے سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔عرفات کی گلیوں میں،تیز بارش میں چل کر مزہ آ رہا تھا۔نبی اکرمؐ و اور صحابہ کرامؓ کا دور یاد آر ہاتھا۔ابراہیم علیہ السلام کی قربانی یا د آ رہی تھی۔انہی بدلیوں سے انہی آسمانوں سے نبی آخرالزمانؐ اور صحابہ کرامؓ کے دور میں ابرکرم برسا کرتاتھا۔عرفات میں بارش کے چھینٹے مقدس لگ رہے تھے۔اچھے لگ رہے تھے۔دل میں آ رہا تھا کہ بارش ہوتی رہے اور ہم اس میں بھیگتے رہیں اور چلتے رہیں۔ڈیڑھ گھنٹہ سے زیادہ بارش ہوتی رہی۔احرام کی چادریں بار بار جسم سے پھسلتیں اور دوبارہ سنبھالنی پڑتیں۔چھتریاں تو کب کی ٹوٹ کر بکھر چکی تھیں۔
بجلی کی گڑ گڑاہٹ بھی جا ری تھی۔اللہ کی قسم! ا ذرا بھی ڈرنہ لگ رہاتھابلکہ میدان عرفات کی طرف جاتے ہوئے موسلا دھار بارش میں بھیگتے ہوئے مزہ آ رہا تھا۔خوشی محسوس ہو رہی تھی،حجتہ الوداع یاد آ رہا تھا۔تاریخ کی کتابوں کو کھنگالنا پڑے گا کہ اس وقت بھی بارش ہوئی تھی کہ نہیں۔مگر یہ تو حقیقت ہے کہ اسی آسمان سے یہ بدلیاں برس رہی ہیں جو انبیاء کرام علیہم ا لسلام،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ سایہ فگن ہوا کرتا تھا۔میں بارش کے ان قطروں کی ساخت پر،ان کی ہیئت پر،ان کے گرنے کے انداز پر غور کرتے ہوئے دور نبوت میں پہنچ گیا ہوں،حجتہ ا لوداع میں پہنچ گیا ہوں،میدان عرفات سجا ہوا ہے۔حضور اکرمﷺ آج بہت خوش ہیں،آپؐ کے اردگرد نورکا ہالہ ہے۔آپؐ کے انگ انگ سے خوشی اور مسرت ٹپک رہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اعلان کردیا ہے کہ آج میں نے دین مکمل کردیا ہے۔اپنی ساری رحمتوں کے دروازے کھول دئیے ہیں۔تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا ہے آپؐ کا مشن مکمل ہو گیا ہے۔عرفات میں بارش اتنی تیز تھی کہ کئی خیمے اڑ گئے۔
لکڑی کے فریم اور پول ٹوٹ گئے۔خیموں میں تلبیہ کی آواز گونجنے لگی۔ عورتیں ڈراور خوف سے سمٹ گئیں،ڈر سے چیخوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔خیموں سے تلبیہ کی گونج جبل رحمت تک پہنچ رہی تھی۔تلبیہ کے ساتھ خیموں سے اذانوں کی آوازیں بھی آ رہی تھیں،بجلی کی کڑک اور بارش میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا۔بارش کو شروع ہوئے دو گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو گیا تھا۔نوجوان سوڈانی بھی خیموں کے ساتھ پہاڑوں پر دعامانگنے میں مصروف تھے۔بارش میں اللہ کے سامنے آہ وزاری کر رہے تھے،رو رہے تھے۔ان کی سسکیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔اچانک آسمان سے بجلی کی زور سے چمکی۔آواز اتنی زیادہ تھی کہ کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوئے۔دعائیں مانگتے مانگتے ایک سوڈانی نو جوان خوف کی حالت میں شاک میں مبتلا ہو کرنیچے گر گیااور منٹوں میں اسکی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔سوڈانی نوجوان احرام کی حالت میں اللہ کے پا س پہنچ گیا۔وہ عرفات کا شہید ہے،سیدھا جنت میں گیا ہوگا۔اس کی نماز جنازہ بھی حرم میں ادا کی گئی۔قیامت کے دن وہ احرام کی حالت میں اٹھایا جائیگا“۔