افغانستان میں امن، سب کی ضرورت

افغانستان میں امن، سب کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی پسندیدہ نہیں،افغان عوام جس حکومت اور جن افراد کو منتخب کریں گے وہی ہمارے پسندیدہ ہوں گے، پاکستان ان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے گا۔میری حکومت کا موقف ہے کہ افغانستان کو باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، افغان خانہ جنگی کے اثرات پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ہوں گے، ہم مزید خانہ جنگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔طالبان جو کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے اس کا پاکستان کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں، ہم نہ تو اس کے ذمہ دار ہیں اور نہ ہی ہم طالبان کے ترجمان  ہیں تاہم امن کے لئے طالبان پر دباؤ ڈالیں گے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ طالبان کو حکومت میں نہیں ہونا چاہئے، تو امریکی حمایت سے جنگ جاری رکھیں ہم چاہتے ہیں کہ طالبان اور افغان حکومت مل کر ایک مشترکہ حکومت بنائیں یہی واحد حل ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ روزانہ 25 سے30 ہزار لوگ افغانستان آتے جاتے ہیں ہم کس طرح چیک کریں کہ کون لڑنے جا رہا ہے، افغان حکومت اطلاع دے تو کارروائی کریں گے۔افغانستان میں ایک گروہ کی اجارہ داری ممکن نہیں اور اگر ایسا ہوا تو نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں نکلے گا،حالیہ بیانات میں افغان رہنماؤں نے پاکستان کو افغان بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا،جو انتہائی افسوس کی بات ہے،کیونکہ پاکستان نے پہلے امریکہ اور پھر افغان حکومت کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کے لئے سخت جدوجہد کی ہے۔ وزیراعظم نے اِن خیالات کا اظہار افغان صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ بات چیت کے دوران کیا۔
افغان حکومت نے حالیہ ہفتوں میں پاکستان پر جو الزام تراشی شروع کر رکھی ہے اس کا افغان میڈیا میں بڑا چرچا ہے اور افغانستان کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا، اُن الزام تراشیوں سے بھرا ہوتا ہے،جو افغانستان کے مختلف لیڈر پاکستان پر کرتے رہتے ہیں۔یہ الزام تراشی کوئی نئی نہیں ہے، حامد کرزئی جب صدر تھے تو وہ بھی اسی طرح کی ٹھنڈی اور گرم پھونکیں بیک وقت مارتے رہتے تھے، وہ خوشگوار موڈ میں ہوتے تو کہتے تھے کہ پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ افغانستان کے تعلقات اتنے اچھے ہونے چاہئیں کہ مَیں کابل میں ناشتہ کر کے بذریعہ سڑک چلوں تو اسلام آباد میں دوپہر کا کھانا کھاؤں اور رات کا کھانا دہلی جا کر کھاؤں،ایسی خواہش تو اُسی وقت پوری ہو سکتی ہے، جب سارے ملک مل کر تعلقات کو اس نہج پر لے جائیں جہاں اس طرح کا سفر ممکن ہو، لیکن یہاں تو حالت یہ ہے کہ پاکستان نے یکطرفہ طور پر خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکھوں کو کرتارپور صاحب آنے کے لئے راہداری کی غیر معمولی سہولت فراہم کی اور جواب میں بھارت سے کسی ملتی جلتی سہولت کا اپنے شہریوں کے لئے مطالبہ تک نہیں کیا،پھر بھی اس اقدام سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بداعتمادی کی فضا پہلے کی طرح قائم ہے یہاں تک کہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے اپنے وزیراعظم مودی کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ سکھوں کو گوردوارہ کرتارپور کی یاترا کے لئے پاکستان آنے کی اجازت دیں، جہاں اعتماد کا بحران اس حد تک پہنچ چکا ہو وہاں ایسے اقدامات سے بھی کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے حال ہی میں پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ وہاں سے دس ہزار سے زیادہ جنگجو افغانستان آئے ہیں،دوسرے افغان عہدیدار بھی اس الزام کو دہراتے رہے اس کا ایک جواب تو وزیراعظم عمران خان نے تاشقند کانفرنس میں موقع پر ہی دے دیا تھا، اب انہوں نے افغان صحافیوں کو صاف طور پر بتایا ہے کہ روزانہ تیس ہزار تک لوگ افغانستان جاتے اور آتے ہیں پاکستان ان سب کو کیسے چیک کر کے یہ طے کر سکتا ہے کہ ان میں سے کون وہاں لڑنے کے لئے جا رہا ہے۔ظاہر ہے یہ لوگ یہاں سے جاتے ہوئے کوئی اسلحہ لے کر تو نہیں جاتے اور نہتے لوگ وہاں جا کر کیسے لڑ سکتے ہیں، اِس لئے الزام تراشی سے پہلے افغان لیڈروں کو معاملے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے لینا چاہئے۔وزیراعظم عمران خان کی یہ پیشکش بھی بروقت ہے کہ اگر افغان حکومت کسی کے بارے میں نشان دہی کرے گی تو کارروائی ہو گی،جہاں تک افغان بحران کا تعلق ہے اس کا حل افغانوں نے خود ہی نکالنا ہے اور ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے پیش رفت کی ہے اگر ایسا ہے تو امید کرنی چاہئے کہ افغان فریق ہتھیاروں کی زبان میں بات کرنے کی بجائے میز پر بیٹھ کر مسئلے کا حل نکال لیں گے اور یہی حل پائیدار بھی ہو  گا تاہم اس کے لئے کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر عمل کرنا ہو گا۔اگر فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہیں گے اور ”زمیں جُنبد نہ جُنبد گل محمد“ کے طرزِ عمل کا مظاہرہ کریں گے تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ ملک کے وسیع تر مفاد کا بھی یہی تقاضا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو، اور طویل عرصے سے جنگی ماحول میں رہنے والے افغان عوام بھی سُکھ کا سانس لیں اور ملک کی تعمیر و ترقی کی طرف توجہ دیں۔
اِس وقت بھی پاکستان میں تیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجر مقیم ہیں،جو تمام تر کوششوں کے باوجود واپس جانے پر آمادہ نہیں،اگر کسی وقت دو چار ہزار لوگ جاتے بھی ہیں تو چکر لگا کر پھر واپس  آ جاتے ہیں، وجہ غالباً یہ بھی ہے کہ افغانستان میں روزگار کے وسائل نہیں ہیں اور یہاں وہ اپنے وطن کی نسبت بہتر زندگی بسر کر رہے ہیں اگر افغانستان میں امن ہو گا اور شہریوں کے لئے روزگار کے وسائل پیدا ہوں گے تو وہ اطمینان کے ساتھ اپنے وطن میں رہ سکیں گے،اِس لئے افغان حکومت اور طالبان سمیت ہر طبقے کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ افغانستان کے حالات میں بہتری آئے۔اگر خانہ جنگی ہوئی اور یہ پھیلتی رہی تو ساری امیدیں دم توڑ جائیں گی، افغان حکومت کو وزیراعظم پاکستان کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔

مزید :

رائے -اداریہ -