پولیس، جرائم، وسائل  

 پولیس، جرائم، وسائل  
 پولیس، جرائم، وسائل  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


چند دن پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک قریبی جاننے والے اپنی بیگم کے ساتھ دعوت پر گئے تھے۔ واپسی پر انہیں ایک  نامعلوم نمبر سے کال آئی  اور جب انہوں نے فون اٹھایا تو پتا چلا  ان کا دوست بات کر رہا ہے جو لاہور سے باہر رہتا ہے۔ ان کے دوست نے انہیں بتایا کہ اس کی والدہ کو دل کا دورہ پڑا ہے اور اسے پچیس ہزار روپے کی ضرورت ہے۔ ہمارے جاننے والے نے رکشہ رکوا کر اسے فوراً پچیس ہزار روپے  جاز کیش کے ذریعے بھیج دئیے۔ ابھی وہ میاں بیوی اسی پریشانی کی حالت میں گھر پہنچے ہی تھے کہ  اسی نمبر سے دوبارہ کال آگئی -اس بار کال کرنے والے نے ادویات خریدنے کے لیے بیس ہزار روپے مانگے۔ ہمارے جاننے والے نے انہیں پھر سے پچیس ہزار روپے بھیج دئیے۔ جب انہوں نے واپس اپنے دوست کو کال کی تو اس کا نمبر بند ملا۔ خیر وہ رات کو اسکی والدہ کے لیے دعا کر کے سو گئے کہ دوبارہ صبح نو بجے اسی نمبر سے کال آئی  اور اس بار اس نے کہا کہ میں رات کو دوا لینے کے لیے نکلا تو مجھے پولیس نے پکڑ لیا اور ساری رات حوالات میں بند رکھا، بڑی مشکل سے میں نے ان سے فون مانگا ہے یہ لوگ میری رہائی کے لیے بیس ہزار روپے مانگ رہے ہیں، ابھی اس بندے نے یہ بات کی ہی تھی کہ اچانک محسوس ہوا کہ کسی دوسرے بندے نے آ کر اس سے  فون چھینا اور مارنا شروع کر دیا۔ وہ دوسرا بندہ اپنے آپ کو اس تھانے کا ایس ایچ او بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کے بندے نے رات کو لڑکی کو چھیڑا ہے۔

اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس کی جان چھوٹ جائے تو بیس ہزار روپے فوراً بھیج دیں۔ اس سارے مکالمے کے دوران ان کو ان کے دوست کی رونے اور چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ انہوں نے دوبارہ باہر جاکر اس نمبر پر  بیس ہزار روپے بھیج دیے۔ ہمارے عزیز دوپہر دو بجے اپنے دفتر روانہ ہوئے اور سوچا جاتے ساتھ میں اپنے کو لیگ کی خیریت دریافت کروں گا۔ جب وہ دفتر پہنچے تو انہوں نے اپنے دوست کو آرام سے کرسی پر بیٹھے ہوئے پایا۔ جب انہوں نے ان کی والدہ کی طبیعت کے بارے میں دریافت کیا تو جواب ملا کہ وہ تو بالکل ٹھیک ہیں انہیں کیا ہوا؟۔ جب ہمارے جاننے والے نے انہیں ساری بات بتائی تو اس نے کہا آپ کے ساتھ فراڈ ہوگیا ہے۔ یہ سن کر ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہاں دفتر میں سب نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ ایف آئی اے سائبر کرائم کے دفتر چلے جائیں وہ اسی وقت گلبرگ پہنچ گئے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو کسی نے ان کی کوئی بات نہیں سنی اور اسی دوران شام کے  پانچ بج گئے اور انہیں سپاہی نے کہا اب کل آنا۔ اب اگلے دن وہ صبح گیارہ بجے سائبر کرائم کے تھانے دوبارہ پہنچ گئے۔ وہاں پھر وہی کام ہوا جو ان کے ساتھ پچھلے دن ہوا تھا۔ ایک بجے تک ان کی شکایت بھی درج نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کسی کو کہہ کر کال کروائی  اور پھر افسر نے انہیں اپنے کمرے میں بلایا اور انہیں کہا یہ ہمارا کیس نہیں آپ اپنے علاقے کے تھانے میں شکایت کرائیں۔ اب وہ متعلقہ تھانے میں پہنچے تو پولیس نے  بھی کیس لینے سے انکار کردیا۔ پہلے تو انہوں نے بڑا مذاق  اڑایا پھر  کہا کہ یہ ایف آئی  اے کا کیس ہے ان کے پاس جاؤ۔وہ فٹ بال کی طرح مختلف تھانوں میں گھومتے رہے  اور پھر وہی ہوا کہ کسی بڑے آدمی سے واقفیت نکال کر سفارش کرانے کا سوچا اور سفارش کام آگئی  اور پرچہ لکھا گیا۔  پرچہ درج  ہونے کے بعد بھی اس پر کوئی کارروائی  نہیں کی گئی - یوں لگا جیسے کیس سرد خانے کی نذر کردیا گیا ہے۔


 لمبے عرصے تک چکر لگانے اور پولیس کی بے حسی دیکھ کر ایک بار پھر تگڑی سفارش کرائی تو مشکل سے کچھ ہل جل شروع ہوئی یہ ایک ایسا کیس تھا جس میں بروقت کارروائی کرکے نہ صرف مجرموں بلکہ پورے گینگ کو پکڑا جاسکتا تھا - میڈیا میں خبریں عام ہیں اور خود پولیس والے بتاتے ہیں کہ ان دنوں لوگوں کو اس طرح کے فون کرکے لوٹنے والے کئی گینگ متحرک ہیں - کمال ہے جب ان کو پکڑے کا موقع آتا ہے تو پولیس والے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔


جرائم میں اضافے کی خبریں ان دنوں عام ہو گئی ہیں۔ شاید ہی کوئی دن جاتا ہو جب آپ کو کسی گلی، محلے، شہر سے کوئی ایسی اطلاع نہ ملتی ہو کہ کسی کے ساتھ کوئی واردات ہو گئی ہے۔ اس کی ویسے تو کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک بڑی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اس سلسلے میں متحرک نہ ہونا ہے۔ ویسے تو جب اعلی حکام نے ہی اپنے فرائض بخوبی سرانجام  نہیں  دینے تو ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔سائلین کو خوار کیا جاتا ہے ۔ جب بھی کسی پولیس آفسر کو ملیں تو وہ یہی کہتا ہے کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں اسی لیے ہم محدود وسائل کا استعمال کرتے ہوئے کام کرتے ہیں۔۔ پچھلے سال پیش آنے والے سانحہ موٹروے کے بعد جب ڈی  این اے ٹیسٹ ہونا تھے تب بھی فرانزک  لیب پنجاب کے پاس فنڈز نہیں تھے۔


ڈولفن فورس کو بنانے کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ اس سے سٹریٹ کرائم میں بہت حد تک کمی آئے گی۔ یہ بھی سچ ہے کہ شروع کے دنوں میں ان کی کارکردگی قابل تعریف تھی لیکن اب  شکایات ہیں کہ اہلکار دھونس جما کر لوگوں سے پیسے مانگتے ہیں۔ یہ لوگ سڑک کنارے اپنی بائیکس لگا کر آنے جانے والے موٹر سائیکل سواروں کو روکتے ہیں اور ان پر کوئی نہ کوئی الزام تھوپ کر پیسے مانگتے ہیں - حکومت کے لیے بہتر ہوگا کہ پولیس اصلاحات کا ڈرامہ چھوڑ کر پہلے سے ہی موجود قوانین پر صحیح طرح عمل درآمد کرا لیا جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو  مطلوبہ  فنڈز صحیح وقت پر فراہم کیے جائیں تاکہ امن وامان کے قیام کے حوالے کسی قسم کا عذر تراشنے کا جواز باقی نہ رہے۔

مزید :

رائے -کالم -