پنجابی مزاحمت کی چند جھلکیاں

ن لیگ کے سابق ایم این اے طلال چوہدری نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ " پنجاب نےکبھی حملہ آوروں کے سامنے مزاحمت نہیں کی"۔ یہ طلال چوہدری کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پراپیگنڈے کے زور پر ایسی فضا بنا دی گئی ہے کہ اس جھوٹ کو بغیر کسی دلیل کے لوگوں نے سچ سمجھ لیا ہے، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سندھ بلوچستان اور کےپی کے کا ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔ افغانوں کو تو خودساختہ بہادر بنا دیا گیا لیکن سندھ بلوچستان کا ذکر نا مزاحمت کاروں میں اور نا ہی بزدلوں کی فہرست میں کیا جاتا ہے۔
تفصیل میں جائے بغیر پنجابی مزاحمت کاروں کی مختصر جھلیکیاں پیش خدمت ہیں۔
سکندر کو روکنے والے راجہ پورس سے شروع ہو کر محمود غزنوی کے حملے کا مقابلہ کرنے والے راجہ جے پال اورانندپال تک پنجابی مزاحمت کا طویل دور ہے۔ راجہ انند پال کی محمود غزنوی سے جنگ کی وجہ ملتان کا حاکم ابوداؤد تھا۔ محمود غزنوی ملتان پر حملے کے لیے درہ خیبر کے راستے آیا تھا اور انند پال کے علاقے سے گزر کر ابوداؤد پر حملہ کرنا چاہتا تھا جس کی انند پال نے اجازت نہ دی جس کے بعد محمود غزنوی اسے شکست دے کر ملتان کی طرف بڑھا لیکن ملتان کے عرب حاکم ابوداؤد نے خراج دے کر صلح کر لی ۔پنجاب پر محمود غزنوی کے قبضے کے بعد دوبارہ پنجابی حاکم کئی صدیوں بعد ادینہ بیگ ارائیں اور پھرمہاراجہ رنجیت سنگھ ہی بن سکے۔ اس دوران سات صدیوں تک یہاں پٹھان اور سید حاکم رہے۔لیکن اس دوران بھی جسرت کھوکھر اور سلطان سارنگ اور گکھڑ جوانوں تک بہت سے کردار پنجابی مزاحمت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
ہندوستان میں انگریز کے ہاتھوں سب سے آخری فتح ہونے والا خطہ پنجاب تھا جبکہ بنگال اپنی غلامی کی ایک صدی پوری کر چکا تھا۔ ہر صوبہ اور ریاست ایک ایک جنگ میں فتح ہوئے لیکن پنجاب میں انہیں دس بڑی اور دو چھوٹی جنگیں لڑنا پڑیں۔ جن میں مُدکی ، فیروز شہر، بدو وال، علی وال ، سعد اللہ پور، ملتان، رسول نگر، سبھراوں ، گجرات اور چیلیانوالا کی جنگیں شامل ہیں۔ چھوٹی لڑائیوں میں اٹک اور جالندھر کی لڑائیاں بھی شامل ہیں۔ چیلیانوالا کی جنگ تو برصغیر کی سب سےخوفناک جنگ مانی جاتی ہے۔
اس وقت صرف پنجابی عوام کی جانب سے غاصب حکمرانوں اور بیرونی حملہ آوروں کے خلاف چلائی گئی تحریکوں کے نام لکھ رہاہوں۔
1:اکبربادشاہ کے خلاف دُلےبھٹی کی بغاوت
2: اکبراورجہانگیرکےخلاف حضرت مجدد الف ثانی کی تحریک
3: رائےاحمدخان کھرل کی انگریزکےخلاف تحریک
4:کوکالہر
5:جٹاپگڑی سنبھال
6:بھرتی بندتحریک
7:غدرپارٹی
8:ناں مل ورتن تحریک
9: نوجوان بھارت سبھا
10: انڈین سوشلسٹ ری پبلکن آرمی
11:تحریک حریت کشمیر
12: ریشمی رومال تحریک
13: اینٹی رولٹ ایکٹ تحریک
14: تحریک ہجرت
15: نیلی پوش
16: خاکسار
17: مجلس احرار
18: کیرتی کسان پارٹی
19: آزاد ہند فوج کےدونوں جرنیل جنرل شاہنواز اور جنرل موہن سنگھ بھی پنجابی تھے اور اسی فیصد فوجی بھی پنجابی تھی
انگریز کے ہاتھوں جلیانوالا باغ جیسے قتل عام بھی پنجاب میں ہوئے اور مارشل لا بھی یہیں لگے ۔ فضائی بمباریاں بھی پنجاب کے شہروں پر ہوئیں۔ کالے پانی کی سب سے زیادہ سزائیں بھی پنجابیوں کو ہوئیں اور انگریز کے خلاف تحریک میں سب سے زیادہ پھانسیاں بھی پنجابیوں کو ہوئیں۔ بھگت سنگھ اور راج گرو جیسے انقلابی بھی یہیں ہوئے اور سب سے زیادہ انگریز افسر بھی اسی سرزمین پر مارے گئے۔ حتیٰ کہ جلیانوالا باغ کے اصل مجرم جنرل ڈائر کا پیچھا تو ایک پنجابی نے لندن تک کیا ۔ اسے ادھم سنگھ عرف رام محمدسنگھ نے موت کے گھاٹ اتارا۔ نظام لوہار، ملنگی، جگا جیسے ان گنت فریڈم فائیٹر بھی اسی دھرتی کی کوکھ سے پیدا ہوئے۔
تقسیم ہند کے بعد بھی دونوں اطراف کے پنجاب میں جابر حکمرانوں اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے متعدد عظیم تحریکیں چلیں ۔ قیام پاکستان کے فوری بعد لاہور میں مجلس احرار کی تحریک ، ایوب خان کے خلاف تحریک ، بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک میں گولیاں اور لاٹھیاں کھائیں ۔ بھٹو کو بچانے لیے ضیا کے خلاف تحریک میں تو لوگوں نے خود کو آگ تک لگائی۔ بے نظیر بھٹو کا ضیاء آمریت کے دور میں لاہور میں ہونے والا تاریخ ساز استقبال بھی پنجابی مزاحمت کا یادگار باب ہے۔ بے نظیر بھٹو کے لانگ مارچ ہوں یا نوازشریف کی تحریک نجات ، مشرف کے خلاف عدلیہ بحالی تحریک ہو یاطاہرالقادری کے اسلام آباد دھرنے، ہر جگہ پنجابی مزاحمت ہی نظر آئے گی۔
اس تحریر میں بیان کردہ اعدادوشمار پنجابی مزاحمت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں اگر تفصیل لکھی جائے تو پورے دفتر سیاہ ہوجائیں۔ اس لیے طلال چوہدری جیسے لوگوں کو پہلے تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیئے تاکہ انہیں پنجابی مزاحمت کے بارے میں علم ہو سکے ۔
نوٹ : یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں