انتہاء پسندی
لوگ دیوار کی طرف منہ کئے کھڑے تھے انہیں دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ یہ اتنے انہماک سے کیادیکھ رہے ہیں۔ تجسس نے آگے بڑھنے پر آمادہ کیادیکھا۔ لکھا ہوا تھا کہ بجلی کے بلوں میں کمی کے لئے ”پیر سید فلاں بخاری شاہ“ سے رابطہ کیجئے ساتھ شاہ صاحب کا موبائل فون نمبر تھا جسے لوگ اپنے موبائل فونز میں محفوظ کر رہے تھے لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر دل پہ جو گذری ہم ہی جانتے ہیں۔جب عوام کی حالت یہ ہو جائے کہ انہیں اپنے ایسے کام کرانے کے لئے جعلی پیروں کے پاس جانا پڑے تو حکمرانوں کے لئے سوچنے کی بات تو ہے، مگر حکمران کیوں سوچیں گے؟ جب حکمرانوں کو منتخب کرتے وقت ہم نہیں سوچتے۔ وہی سیاستدان ہیں سب کے دیکھے بھالے انہی کا ہم انتخاب کرتے ہیں اور اپنے ہی انتخاب پر پھر نادم بھی ہوتے ہیں۔ انتخابی موسم میں دو حکمران جماعتوں میں سے ایک نے دو سو اور ایک نے تین سو بجلی کے فری یونٹ دینے کی بات کی تھی، لیکن سیاستدانوں کی باتیں تو شائد محض کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔
یہ90ء،80ء کی دہائی کا ذکر ہے جب بڑے شہروں سے دور چھوٹے شہروں اور قصبات تک ٹیلی فون کنکشن لگائے گئے، حالانکہ اس سے قبل ملک میں لاکھوں گھروں میں فون کی گھنٹیاں بجتی تھیں، لیکن کوئی بھی سہولت جب چھوٹے شہروں تک پہنچتی ہے تو لوگ خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں جیسے آزادی کے بعد چند سال قبل تک ملک کے کئی دوردراز علاقوں تک بجلی نہیں پہنچی تھی اور چند سال قبل جب بجلی پہنچی تو آنکھوں میں نئی رتوں نے بسیرا کرلیا۔ لوگ بجلی کا بٹن دباتے۔ بلب روشن ہوتا توآنکھوں میں خوشیوں کی تتلیاں رقص کرنے لگتیں کہ رات بجلی کے کرشمے سے کیسے روشن ہو جاتی ہے پنکھے کا بٹن دبانے سے ہوا کے جھونکے آنا شروع ہوجاتے ہیں لوگ حیرتوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے زمانے کی اس ترقی میں آج بھی سادہ لوح موجود ہیں جن کی سادگی سے کھیلا جارہا ہے، جن دیہاتوں میں قیام پاکستان کے بعد ابھی چند سال قبل بجلی آئی ہے ان کے مکینوں کی خوشی کا جہاں کوئی ٹھکانہ نہ تھا وہاں اب ان کی حیرانی ہے کہ جاتی نہیں جیسے 80ء کی دہائی میں ملک کے دور دراز علاقوں تک پی ٹی سی ایل کے کنکشن لگائے گئے تو پہلے پہل سیدھے سادے شہریوں کو اس کی سہولت کے ساتھ اس کی گرانی کا علم نہیں تھا پھر انہیں معلوم ہوا کہ یہ سہولت ایسی سستی نہیں بعد میں لوگ بہت ضروری کال کرتے اور اپنی بات کو تیزی سے ختم کرنے کی کوشش کرتے کہ بات ایک منٹ سے پہلے ختم ہو جائے اگر ایک منٹ سے ایک سیکنڈ اوپر ہوگیا تو وہ سیکنڈ دوسری کال میں شامل ہو جائے گا اور اس وقت دوسرے شہر کی ایک کال تقریباً تیس روپے میں پڑتی تھی اور 80ء کی دہائی میں 30روپے ایک گنتی میں شامل ہوتے تھے فون کال کا دوسرے سیکنڈ میں جانے کا مطلب دوسرا منٹ شروع ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہ کیا کہ دو سو یونٹ سے ایک یونٹ بھی اوپر گیا تو ایک یونٹ دو سو یونٹس سے بھی بھاری پڑجائے۔پی ٹی سی ایل کی قیمتوں میں تو وقت کے ساتھ کمی ہوتی گئی لیکن بجلی کی قیمتیں اتنی بڑھیں کہ روز بروز بڑھتی گئیں اور بڑھتی ہوئی یہاں تک آ پہنچی ہیں کہ خدا کی پناہ۔حکومت کی طرف سے اپنے عوام کے لئے دو سو یونٹ ٹیکسز سمیت اپنی اول قیمت پر فراہم کرنے کی سہولت موجود ہے لیکن دو سو سے ایک یونٹ بھی اوپر گیا تو سہولت ختم اور اذیت شروع۔
جن علاقوں میں ابھی چند سال پہلے ہی بجلی کی سہولت پہنچی ہے انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ سلسلہ راحتوں سے شروع ہو کر آفتوں تک جا پہنچے گا عوام نے 200یونٹ والے معاملے کی آواز اٹھائی تو حکومت نے 200یونٹ سے اوپر یونٹ چلنے والی تلوار اٹھا کر اس کی جگہ تیر پکڑ کر عوام کو نشانے پر رکھ لیا ہے، یعنی جو قیمت 200 یونٹ کے اوپر لگائی جاتی تھی اب وہ قیمت پہلے یونٹ سے ہی لگائی جائے گی، یعنی لوگ ابھی 200یونٹ سے اوپر ایک یونٹ کے استعمال کو سہلا رہے تھے اس پر حکومت نے نئے زخم دینے کی تیاریاں کر لیں اور نئے زخموں میں چھ ماہ مسلسل 200یونٹ استعمال کرنے والے بھی شامل ہیں یعنی کان ایک طرف سے چھوڑ کر دوسری طرف سے پکڑا گیا بلکہ اب کے حکومت نے کان اور بھی زور سے پکڑا ہے وہ بھی عوام کا۔حکومت کے 200یونٹس سے اوپر چلنے والے یونٹ پر زائد قیمتوں کو واپس لینے کا وعدہ تو کیا گیا، لیکن جب بل آئے تو پھر وہی200سے اوپر چلنے والے یونٹ کی اذیت برقرار ہے، یعنی حکومت کی دروغ گوئی پر بھی ماتم کیا جانا چاہیے۔ ہم مسلم لیگ ن کے ترقیاتی کاموں کے ہمیشہ معترف رہے ہیں لیکن بجلی کے بلوں میں عوام سے اربوں وصول کرکے اگر ترقیاتی منصوبے شروع کئے جائیں تو اس میں کمال کیا ہے کہ یہ کام تو ایک پرائمری سکول کا ہیڈ ماسٹر بھی کر سکتا ہے بلکہ اس سے بہتر کرسکتا ہے۔
کسی بھی حکمران پر اپنی رعایا کی جان مال عزت کی حفاظت فرض ہوتا ہے حکومت اپنی رعایا کی ضروریات زندگی کی ذمہ دار بھی ہوتی ہے تاکہ رعایا بھوک افلاس سے بچ سکے اور بے راہروی کا شکار نہ ہو حکمران اپنے عوام کے متعلق دلوں میں جذبہ ہمدردی رکھتے ہیں تاکہ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والا سکون پائے، کیونکہ ایک نیک دل حکمران سے زیادہ عوام کا کوئی بہی خواہ نہیں ہوتا اور کسی نیک دل حکمران سے عوام کی خستہ حالی دیکھی بھی نہیں جاتی، لیکن ہمارے ہاں معاملہ کچھ الگ ہے عوام بھاری بھرکم ٹیکسوں سے تلملا اُٹھے ہیں اور حکمران عوامی خوشحالی کی بات کرتے ہیں۔حکمران بیرونی سرمایہ کاری کی بات کرتے ہیں، جبکہ اپنے تاجر ملک چھوڑ کر دیار غیر منتقل ہوئے جاتے ہیں۔ عوام کی حالت ایسی کہ یہاں غربت کے ہاتھوں اپنے بچوں سمیت والدین کی خودکشیاں بھی سامنے آئی ہیں بجلی کی قیمتوں سے دل برداشتہ شہریوں نے بھی خودکو مٹایا ہے۔عوام جل اُٹھے۔ مر اٹھے لیکن ان جلتے مرتے گرتے پڑتے عوام کی مسیحائی کو کوئی نہ آیا ہمارے حکمران اپنے دل میں اتنی سختیاں کیوں رکھتے ہیں کہ انہی عوام نے ان کا انتخاب کیا ہے حکمرانوں کو چاہیے کہ عوام کو بھاری بھرکم ٹیکسوں سے نجات دلائیں وہ ٹیکس بجلی کے بلوں میں ہوں یا کہیں اور بجلی کے بلوں میں ٹیکس تو انتہاء کو چھو گئے ہیں اور انتہاء پسندی کسی کو کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہوتی وہ انتہاء پسند حکمران ہوں یا کوئی اور۔