پنجاب یونیورسٹی میں تیسری اینوویشن کانفرنس

پنجاب یونیورسٹی میں تیسری اینوویشن کانفرنس
پنجاب یونیورسٹی میں تیسری اینوویشن کانفرنس
کیپشن: dr ahsan akhtar naz

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہمارے اکثریتی معاشرے میں صرف معاشی افلاس ہی نہیں، بلکہ علمی و تحقیقی افلاس بھی بہت پایا جاتا ہے۔اسی لئے اگر کسی نام نہاد دانشور کے ہاتھ انگریزی زبان میں کوئی نئی اصطلاح (Term) آ جاتی ہے تووہ اسے جابجا بول کر یوں متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے، جیسے یہ اصطلاح صرف اسی پر آسمانی علم کی صورت میں نازل ہوئی ہے، حالانکہ اصل حقائق اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو یوں علمی ڈھونگ رچانا ہمارے ذہنی افلاس کی بھی علامت ہے.... اسی طرح ہمارے ہاں کچھ عرصے سے ”انٹرپرینور شپ“ کا بہت چرچا ہے، حالانکہ یہ تصور پہلی مرتبہ 1723ءمیں سامنے آیا تھا۔آج کل یہ اصطلاح لیڈرشپ کی خصوصیات،کسی پراڈکٹ کی مینوفیکچرنگ سروس اور ٹیم ورک کے ساتھ انتظامی صلاحیت استعمال کرنے کے عمل کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔مختلف ماہرین معاشیات ،مثلاً رابرٹ ریچ ، رچرڈ کینٹیلن اور آدم سمتھ نے سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں اس نظریئے کو آگے بڑھایا۔باقاعدہ طور پر یہ اصطلاح بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں وضع کی گئی تھی۔
”انٹرپرینور شپ “فرانسیسی زبان سے مستعار لیا گیا یا اخذ کردہ لفظ ہے۔بیسویں صدی کی مختلف دہائیوں سے لے کر 2013ءتک رونالڈے کی تازہ ترین تعریف کے مطابق انٹرپرینورا سے کہتے ہیں جو اپنے نئے خیالات اور تصورات کو کمرشلائز کرنا چاہتا ہے۔ہمارے ہاں اس کا یہ تصورعام ہوگیا ہے کہ اگر ایک فرد یا ادارہ نفع یا نقصان کا رسک لینے کو تیار نہ ہو تو وہ دوسرے فرد، افراد یا اداروں کو اپنے ساتھ شریک تجارت کرے۔یوں یہ کام زیادہ تیزی، وسعت اور مثبت نتیجہ خیزی کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ایسا کرنے سے ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں بہت سے مشکل ، بلکہ ناممکن منصوبوں کو آسانی سے ممکن بنایا جا سکتا ہے اورمعاشی ترقی کا خواب جلد شرمندئہ تعبیر ہو سکتا ہے۔دنیا میں جن ممالک نے بھی ترقی و خوشحالی کی منازل طے کی ہیں، اس نظریئے پر پوری تن دہی اور اخلاص کے ساتھ عمل کرکے حاصل کی ہیں۔
خبر اور علم کی دنیا میں پس ماندہ اقوام اکثر پیچھے رہ جاتی ہیں،لیکن بین الاقوامی میڈیا کے غلبے کی بدولت اب اس ”عالمی گاﺅں“ میں کوئی بات زیادہ دیر تک ڈھکی چھپی نہیں رہتی۔ ایشیا کی قدیم اور عظیم درس گاہ پنجاب یونیورسٹی میں ”انٹرپرنیورشپ“ کے نظریئے کو عملی صورت میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران، ڈاکٹر حسن صہیب مراد اور عابد حسین خان شیروانی نے 2012ءمیں پہلی بار متعارف کروایا۔گزشتہ دنوں اس سلسلے کی تیسری دو روزہ کانفرنس الرازی ہال پنجاب یونیورسٹی میں منعقد ہوئی، جس میں مہمان خصوصی وفاقی وزیر برائے پلاننگ، ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم احسن اقبال تھے۔یہ کانفرنس پنجاب یونیورسٹی کے علاوہ یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی، پاکستان سائنس فاﺅنڈیشن،لاہور چیمبر آف کامرس،Pastic، وغیرہ کے باہمی تعاون سے منعقد ہوئی۔
احسن اقبال نے کہا کہ وقت تو کم رہ گیا ہے، لیکن میرے اندر ایک استاد اور ایک سیاست دان موجود ہے اور ان دونوں کو بولنے کا بہت چسکہ ہوتا ہے،اس لئے گفتگو کی طوالت کا شکوہ نہ کیجئے گا۔آپ کو یاد ہوگا کہ ہماری گزشتہ حکومت نے ”ویژن 2010ء“پروگرام متعارف کروایا تھا۔ ہم نے تعلیم ،بالخصوص سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں اچھی منصوبہ بندی کے ذریعے ملکی ترقی اور خوشحالی کا سفر طے کرنا شروع کیا تھا۔یہ سفر ابھی جاری تھا کہ ایک طالع آزمانے چلتی گاڑی کی زنجیر کھینچ دی۔اب ہم نے حالیہ دورِ حکومت میں ”ویژن 2025ئ“ پروگرام شروع کیا ہے۔ہم ایک نئے عزم سے بنیاد سحر رکھ رہے ہیں۔امید ہے کہ یہ کانفرنس بھی ہمارے پروگرام کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگی۔باہمی شراکت سے منعقد کی گئی یہ کانفرنس صنعت و تجارت کے میدان میں تعلیمی اداروں کی تحقیق کی روشنی میں نئے خیالات و نظریات کو سامنے لائے گی، تاکہ اس عمل کے نتیجے میں ملک کو معاشی تحفظ، ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کیا جا سکے۔اسی طرح ہم توانائی کے بحران پر قابو پا سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ صنعتی انقلاب کے بعد اب علمی انقلاب اور نالج بیسڈ اکانومی کا دور ہے، جس میں پاکستان کی ترقی کے لئے تعلیمی اداروں اور صنعتوں میں رابطے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔حکومت 2025ءتک ایکسپورٹ کو 100بلین ڈالر تک بڑھانا چاہتی ہے۔حکومت ایک انیوویشن فنڈ قائم کرنا چاہتی ہے اور یونیورسٹیوں کو زیادہ سے زیادہ فنڈنگ کرنا چاہتی ہے۔یونیورسٹیوں میں 7000میں سے ٹیکسٹائل سیکٹر میں صرف 10یا 15پی ایچ ڈی ہیں،ان میں اضافہ ہونا چاہیے۔
وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے کہا کہ گزشتہ دنوں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ پنجاب کے اجلاس میں بیورو کریٹس نے پنجاب یونیورسٹی کو ملنے والے 83کروڑ 50لاکھ کے ریسرچ پراجیکٹس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔اس وقت احسن اقبال نے یونیورسٹی کی بہت مدد کی، ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ڈاکٹر مجاہدکامران اپنی اکثر تقریروں میں کہیں نہ کہیں اپنے والد مرحوم سید شبیر حسین شاہ کے اقوال کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔شبیر حسین شاہ نہ صرف ”پاکستان ٹائمز“ میں کام کرنے والے کہنہ مشق صحافی تھے، بلکہ کئی اہم کتب کے مصنف، دانشور اور حکمت کار بھی تھے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ منفی رویے رکھنے والی پنجاب کی بیورو کریسی ہے، غالباً اسی لئے اسے ”بُرا کریسی“ بھی کہتے ہیں۔وائس چانسلر نے کہا کہ فزکس اور دیگر سبھی علوم میں نئے نظریات اور تصورات متعارف کروانے والوں کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ان نظریات کو چیلنج کرنے والے بھی تاریخ رقم کرتے ہیں،لہٰذا ہمیں Innovationیعنی نئے نظریاتی جو تصورات کو اپنانے میں گھبرانا نہیں چاہیے۔اسی لئے اقبالؒ نے کہا تھا:
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
وائس چانسلر نے کہا کہ ایک یونیورسٹی کو 1500پی ایچ ڈی سالانہ تیار کرنے چاہئیں۔یو ایم ٹی کے ریکٹر ڈاکٹر حسن صہیب مراد نے خوبصورت ادبی الفاظ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ملک کے ہر بڑے شہر میں انڈسٹریل پارک بنائے، تاکہ ملک کی ایکسپورٹ میں اضافہ کیا جا سکے۔ان پارکوں کے قیام سے بیرونی سرمایہ کار بھی کھنچے چلے آئیں گے۔اسی راستے پر چل کر ہماری اکانومی مضبوط ہوگی۔وہ اس لئے بھی اشد ضروری ہے کہ جن ملکوں کی اکانومی مضبوط نہیں ہوتی، وہ ممالک اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد اور خود مختار نہیں ہوتے۔ سائنس فاﺅنڈیشن کے چیئرمین خلیل احمد سومرو نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان میں ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے فاﺅنڈیشن انہیں ہرممکن موقع فراہم کرتی ہے۔
تیسری اینوویشن کانفرنس کے اصل روحِ رواں عابد شیروانی نے کہا کہ کوئی حکومت، پرائیویٹ سیکٹر تعلیمی ماہرین اور صنعت کے باہمی تعاون اور اشتراک کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔انہوں نے کہا کہ 5سال قبل ہم نے انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پلاننگ کی بنیاد چار اصولوں پر رکھی تھی۔سوشل میڈیا اور مارکیٹنگ، سکالرز کی مزید تربیت، ان کے حقیقی کام کی اشاعت و فروغ اور یونیورسٹیوں اور صنعتوں کا باہمی تعاون اس کے بنیادی مقاصد میں شامل تھے۔ہماری یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ محض تحقیق کروانے کی بجائے اطلاقی تحقیق کی طرف زیادہ توجہ دیں۔حکومت کو اس کام کے لئے زیادہ سے زیادہ فنڈنگ کرنی چاہئے اور ان فنڈز کی مانیٹرنگ کا کوئی نظام لازماً وضع کرنا چاہئے۔اطلاقی تحقیق کرنے کے بعد اس کو اگر زیادہ سے زیادہ کمرشلائز نہ کیا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ہماری صنعتوں کو اس نئی تحقیق سے فائدہ اٹھا کر ملک کی تعمیر و ترقی میں بہتر کردار ادا کرنا چاہئے، لہٰذا ہم موجودہ حکومت سے نسبتاً زیادہ توقعات رکھتے ہیں کہ وہ اس طرف توجہ دے کر کوئی تاریخی کردار ادا کرے گی۔
اس کانفرنس سے انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پنجاب یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عامر اعجاز نے بھی خطاب کیا۔ وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے احسن اقبال کو پاکستان نیشنل فورم کے تعاون سے تیار کردہ پانچ سالہ تعلیمی منصوبہ بھی پیش کیا۔اس کے بعد یونیورسٹی کے وسیع برآمدے میں 60اداروں کے مختلف سٹالوں کی نمائش کا افتتاح کیا گیا۔ان سٹالوں پر موجود اشیاءاور مصنوعات ہزاروں شرکاءاور طلبہ و طالبات کے لئے کشش اور دلچسپی کا باعث ثابت ہوئیں۔ماہرین کا خیال تھا کہ ایسے ٹھوس، مثبت اور تعمیری کام ہر بڑے شہر اور یونیورسٹی میں سال میں کم از کم دو مرتبہ ضرور ہونے چاہئیں۔ ٭

مزید :

کالم -