اقتدار کے سنگھاسن
کیا ملک پر سے مارشل لاء کے سائے ہمیشہ کے لئے چھٹ چکے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ماضی قریب میں زبان زدِ عام رہا ہے کیونکہ اب تک ملک میں نصف سے زیادہ عرصہ عساکر پاکستان اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان رہیں۔ وقفے وقفے سے مارشل لاء کا نفاذ ہوتا رہا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہرفوجی انقلاب کو قوم کے بیشتر طبقات نے خوش آمدید کہا۔ اس کی بنیادی وجہ صرف ایک ہی تھی کہ انقلاب کے ارکابرین حکومت سنبھالتے وقت اپنی جو ترجیحات واضح کرتے اس میں قوم کے لئے یہ پیغام ضرور پنہاں ہوتا کہ ان کے اس اقدام سے عوام کی محرومی کا ازالہ کیا جائے گا۔ ہر فوجی انقلاب کے برپا ہوتے وقت قوم کو امید کی ایک کرن نظر آتی ہے جس سے ایسے انقلابات کی توثیق ہوتی رہی لیکن اقتدار کی مسند پر بیٹھ جانے کے بعد فوجی حکمرانوں نے مسلسل قوم کو مایوس کیا جس کی وجہ سے قومی بے چینی کی ایک لہر اُٹھتی رہی اور فوجی حاکموں کو اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑتا رہا۔ جہاں ایسا ہونا نا ممکن دکھائی دیتا ، وہاں قدرت اپنا کردار ادا کرتی رہی اور اقتدار سیاسی لوگوں کے پاس منتقل ہوتا رہا۔ آخری ڈکٹیٹر کا سورج 2008ء میں غروب ہوا تو ملک میں ایک عمومی تاثر قائم ہو گیا کہ آمریت سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل ہو چکی۔ اس کے بعد ایک جمہوری دور ختم ہو چکا اور قوم دوسرے سیاسی دور میں داخل ہو چکی ہے۔ دوسرے جمہوری دور کے تقریباً نصف وقت گزر جانے کے باوجود عوامی بے چینی کم ہونے کی بجائے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ کیونکہ اقتدار پر قابض ملک کی اشرافیہ سے عوام کی امیدیں ٹوٹ رہی ہیں۔ پچھلے سات سالوں میں مارشل لاء کے نفاذ کا وقتاً فوقتاً خدشہ لاحق ہوتا رہا لیکن فوج اس انتہائی اقدام سے بوجوہ احتراز برتتی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ فوج کی اعلیٰ قیادت نے یہ حقیقت سمجھ لی تھی کہ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جلد ہی فوج کا مقام عوام کی نظروں میں گرنا شروع ہوتا ہے اور یہ گراوٹ سرعت کے ساتھ اپنی منزلیں طے کرتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ فوجی حکومت کی کارکردگی اس قدر مایوس کن ہوتی ہے کہ لوگوں کی بے چینی اور بے کلی حد سے زیادہ بڑھتی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ قوم اس ادارے کے لئے منفی جذبات رکھنا شروع کر دیتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جو عوام کے لئے صرف قابل قبول نہیں بلکہ قابل تکریم بھی تھا وہ قابل نفرت بنتا جاتا ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ افواج پاکستان نے پاکستان کی حفاظت کا فریضہ بڑے احسن طریقہ سے ہمیشہ ہی انجام دیا ہے اور اگر یہ عوام کی نفرت کا شکار ہو جائیں تو ملک کی سالمیت کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس لئے بطور قوم کے ہم اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ ہماری افواج جو کہ ہمارے لئے متبرک ہیں اُن کے بارے میں لوگوں کے اذہان آلودہ ہوں۔ ان معروضی حالات کا فہم کر کے افواج کے تھنک ٹینک نے فیصلہ کیا کہ مارشل لاء جیسے قانون کو دوبارہ بروئے کار نہ لایا جائے لیکن ملک کی سلامتی سے بھی غافل نہ ہوا جائے۔ ملک کی عدلیہ جو کسی حد تک ماضی قریب میں آزاد ہوئی اس کے علی الرعم اس کے بڑوں نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ ایسے انتہائی اقدام کی حوصلہ شکنی کی جائے یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب میں عدلیہ نے اپنی بھرپور فعالیت کا مظاہرہ کیا اور طاقتور طبقوں کو واضح پیغام دیا کہ ایسے کسی بھی اقدام سے احتراز کیا جائے۔ فوج نے بطور ادارہ اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو سیاسی میدان میں قائم رکھنے کا بھی عزم کیا یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں چند ایسے فیصلہ کن مراحل بھی آئے جہاں فوج براہ راست سیاست میں ملوث ہو سکتی تھی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ بہر حال براہ راست مداخلت کے راستہ کو اپنانے کی بجائے جنرل کیانی اور ان کے رفقائے کار سیاست میں اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھنے میں کامیاب رہے اور فوجی رہنماؤں نے غیر مرئی انداز میں کسی نہ کسی طریقہ سے قومی سیاست میں اپنی مداخلت بالواسطہ جاری رکھی۔ دفاع پاکستان، خارجہ امور اور داخلہ معاملات براہِ راست فوج کی نگرانی میں چلتے رہے اور سیاسی زعماء ملک کے حساس معاملات میں فوج کے نقطہ نظر سے مفر نہ کر سکے۔ فوج نے اپنا یہ کردار بالواسطہ جاری رکھا۔ مشرف دور کے بعد جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے ہر لحاظ سے سیاستدانوں کو اپنی موجوگی کا احساس دلا کے رکھا اور سیاسی حکومت کے لئے ان شعبہ جات میں اپنی حتمی پالیسیاں نافذ کرنے سے باز رکھا۔ پچھلے سیاسی دور میں عدلیہ نے فوج کی اس پالیسی کی بھرپور تائید جاری رکھی اور جمہوری حکومت دکھاوے کے طور پر اپنے معاملات سیاسی طور پر چلاتی رہی لیکن عملاً پالیسی سازی ان کے اختیار میں نہ رہی۔ سیاسی معاملات کے پس پردہ فوجی مداخلت جاری رہی۔ یہ تاریخی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پردے کے عقب میں فوج نے حالات کی ڈور اپنے ہاتھ میں رکھی۔
اس پالیسی کے پس پردہ ملک کے اصل مقتدر حلقوں کی یہ سوچ کار فرما رہی کہ سیاسی معاملات میں براہِ راست مداخلت کر کے فوج کے عمومی تاثر کو گدلانے سے بچایا جائے۔ مُلک کے سب سے اہم مسئلہ سے نپٹنے کے لئے فوج نے اپنی حکمت عملی کے مطابق کام کیا۔ دہشت گردی کے عفریت سے نجات حاصل کرنے کے لئے فوجی حکام کی اپنی پالیسی تھی جس کو سیاستدان بھی اپناتے رہے۔ فوجی اعلیٰ قیادت نے دہشت گردوں سے واضح ٹکراؤ سے احتراز کیا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ پالیسی کیا قومی امنگوں کی آئینہ دار تھی کہ نہیں؟ اسی حکمتِ عملی کا شاخسانہ تھا کہ دہشت گردوں نے اپنے آپ کو انتہائی زیادہ منظم کر لیا اور ملک کے کونے کونے میں اپنا دائرہ اثر بڑھا لیا اور اس قدر مضبوط پوزیشن قائم کرلی کہ ملکی سلامتی کو گھمبیر خطرات لاحق ہو گئے۔
موجودہ فوجی قیادت نے اس صورتِ حال کا صحیح اداراک کر لیا اور اس حکمتِ عملی سے نجات کے لئے فوجی اقدامات کرنے شروع کر دیئے کیونکہ سابقہ عسکری پالیسی نے دہشت گردی کو بڑھانے میں بہت مدد کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گردوں نے جنگ کا دائرہ قبائلی علاقوں اور سرحدوں سے بڑھا کر ملک کے بڑے شہروں تک پھیلا دیا اور اس قدر شہری ہلاکتیں ہونے لگیں کہ ملک کی بقا کو خطرہ پیدا ہو گیا۔ موجودہ فوجی قیادت نے اس کا بھرپور ادراک کر لیا اور حالات کو بھانپتے ہوئے دہشت گردوں پر فوری ضرب لگانے کا فیصلہ کیا۔ دہشت گردوں کے نمائندوں اور صلاح کاروں کے ذریعہ بات چیت کا نتیجہ ناکامی کے سوا کیا ہو سکتا تھا کیونکہ اس پالیسی کا مقصد دہشت گردوں سے براہِ راست جنگ سے احتراز کرنا تھا۔ لیکن فوجی قیادت اب پوری طاقت کے ساتھ اس جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر چکی تھی اس لئے اس کی اعلیٰ قیادت نے ضرب عضب کے نام سے ان کے خلاف ایک بھرپور جنگ کا آغاز کیا۔ دہشت گردوں کے خلاف اپنی کارروائی کو فوج نے بہت ہی شدو مد اور پختہ عزم کے ساتھ آگے بڑھایا اور یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پوری قوم نے اس آپریشن کی تائید کی۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی سلامتی کے لئے یکجہتی کا بے مثال مظاہرہ ہوا اور فوج کے پیچھے قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا فوج نے اس اہم جنگ میں بے حد اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ دہشت گردوں کے گرد اپنا حصار اس قدر تنگ کر دیا ہے کہ ان کو بھاگنے کی راہ نہیں مل رہی۔ اس جنگ میں جیت ہی ہمارا نصب العین ہے۔