پرُجوش بلال یٰسین، توجہ دیں!
پنجاب کے وزیر خوراک بلال یٰسین نوجوان اور پرجوش ہیں اور اسی عالم جوش میں بعض ایسے دعوے بھی کرتے ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں بنتا، ہفتہ رفتہ کے دوران ایک طرف تو اچانک درجہ حرارت میں اضافہ ہوا، گرمی بڑھ گئی، اس کے ساتھ ہی بجلی کی رسد و طلب میں نمایاں فرق آ گیا کہ گرمی نے پنکھے اور ایئرکنڈیشنر وقت سے پہلے چلانے پر مجبور کر دیا۔ یہ پریشانی اپنی جگہ تھی کہ منافع خور مافیا میدان میں آ گیا، سبزیاں ،مرغی، انڈے، پھل بھی فوراً مہنگے ہو گئے اور اس مہنگائی کا کوئی توازن بھی نہیں تھا، اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے رپورٹر بھائیوں نے مارکیٹ کی دکانوں سے نرخوں کا موازنہ کرنے کی بجائے ریڑھی بانوں والے نرخ نشر اور شائع کر دیئے۔ ٹماٹر ایک سو روپے کلو سے بڑھے اور مرغی کا گوشت 250 روپے کلو سے اوپر ہوا تو ان دوستوں نے یہ نرخ 170 سے 270روپے فی کلو تک پہنچا دیئے۔ بہرحال نرخوں میں اضافہ بہت ہی غیر متوازن تھا، اس سے صارفین کی چیخیں تو نکلنا ہی تھیں سو نکلیں اور پھر خبر بھی بڑی بنی کہ ابھی تو رمضان المبارک کی آمد کے آثار نظر آئے ہیں۔ خدشہ بجا کہ اب یہ ہوا تو رمضان المبارک میں کیا ہوگا۔
بلال یٰسین وزیر خوراک کی حیثیت سے نرخوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں انہوں نے جذبہ سے فرمایا، مرغی اور ٹماٹر میں سستے کرکے دکھاؤں گا اور انہوں نے ضلعی انتظامیہ سے ٹماٹر کے نرخ 70روپے فی کلو اور مرغی کے نرخ دو سو روپے فی کلو مقرر کروا دیئے، اب خبر تو بن گئی کہ وزیر خوراک کے نرخ ٹماٹر 70روپے، مرغی دو سو روپے فی کلو اور مارکیٹ کے نرخ ایک سو روپے اور 250روپے فی کلو ہیں، یہ بلال یٰسین ہیں یہ محترم وزیراعظم محمد نوازشریف کے رشتہ دار اور پہلوانوں کے بہت ہی مشہور گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد یٰسین پہلوان خود بھی کشتی لڑتے تھے اور بلال یٰسین نے بھی بدن پر اکھاڑے کی مٹی لگوائی ہوئی ہے۔ یٰسین پہلوان لاہور میٹروپولیٹین کارپوریشن کے کونسلر بھی تھے اور ہماری ان کے ساتھ سلام دعا تھی، اسی حوالے سے بلال یٰسین سے بھی کبھی کبھار علیک سلیک ہوجاتی ۔ اب جو انہوں نے یہ نظام سنبھالا ہے تو اب تک قابو نہیں پا سکے کہ ضلعی انتظامیہ غیر معقول طریقے سے غیر مقبول فیصلے کرتی ہے جن کا زمینی حقائق سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا، البتہ پرائس کنٹرول مجسٹریٹوں کو چھاپے مارنے اور پرچون فروشوں کو جرمانہ کرنے کا موقع ضرور مل جاتا ہے، اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ انتظامیہ نے بکرے کے گوشت والے نرخ 70روپے فی کلو مقرر کر رکھے ہیں اور بازار میں گوشت نو سو روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔ دکان دار سے شکوہ کریں تو جواب ملتا ہے۔ منڈی میں مہنگا ہے۔ تھوک نرخ کنٹرول ہوں گے تو ہم بھی کم قیمت لے سکیں گے۔
اس سلسلے میں اگر یہ کہا جائے کہ ضلعی انتظامیہ کی کارروائی صرف کاغذ اور ’’سرکاری فرائض‘‘ کا پیٹ بھرنے کے لئے ہے ورنہ حقیقی معنوں میں اشیاء کے نرخوں کو کنٹرول کرنے کے لئے درست عمل ہی اختیار نہیں کیا جاتا۔ہم خود بھی ایک دور میں پرائس کنٹرول کمیٹی کے رکن رہے۔ یہ ایوبی دور تھا، لاہور میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (جنرل) لودھی صاحب اور سٹی مجسٹریٹ سید ناصر علی شاہ تھے۔ دونوں اچھے انسان تھے ان کی جوڑی بھی خوب سجتی تھی۔ اس دور میں بھی مہنگائی بڑھی تو سٹی مجسٹریٹ کی قیادت میں پرائس کنٹرول کمیٹی بنائی گئی، اس میں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے سردار خالد محمود (مجسٹریٹ دفعہ 30) تاجروں کے مختلف نمائندے اور ہم تین صحافی (ہم ۔ احمد مظہر خان+ طارق اسماعیل) بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی کی سر توڑ کوشش اور چھاپوں کے باوجود مہنگائی قابو نہیں آتی تھی اور ہر بار ہمیں طلب و رسد کا فارمولا سمجھانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ تھوک کے تاجر کہتے کہ مانگ بڑھے گی تو قیمت بھی بڑھے گی۔ قیمت جب کم ہوگی کہ مانگ میں کمی ہو صارفین کو بھی ضرورت سے زیادہ خریداری نہیں کرنا چاہیے۔ پرچون فروش واویلا کرتے تھے کہ کرتا مونچھ والا اور پکڑا داڑھی والا جاتا ہے، ان کا موقف تھا کہ قیمت تھوک سے کم ہوگی تو پرچون فروش بھی گھٹائے گا، زیادہ ہو گی تو زیادہ دام لیں گے اس لئے تھوک مارکیٹ کو کنٹرول کیا جائے۔ تھوک کے تاجر وہی طلب و رسد پکارتے چلے جاتے تھے۔یوں کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا تھا، ایسے میں ایک بڑے اجلاس میں یہ مسئلہ زیر غور آیا تو انتظامیہ نے تسلیم کر لیا کہ نرخ مقرر کرنے کے لئے تھوک اور پرچون کا فرق مدنظر رکھنا ہوگا، چنانچہ اس کے بعد تھوک مارکیٹوں کی تاجر تنظیموں، پرچون فروشوں کے نمائندوں اور پرائس کنٹرول کمیٹی کے مشترکہ اجلاس شروع ہوئے۔ بحث کے بعد تھوک اور پرچون کا فرق سامنے رکھ کر نرخ مقرر کر دیئے جاتے، اس سے افاقہ بھی ہوا اور چھاپے بھی موثر ثابت ہوئے آج جو صورت حال ہے اس میں سارا زور پرچون فروشوں پر ہے، تھوک والوں سے بات نہیں کی جاتی یا پھر ان سے درخواست کرکے ان کو ڈرایا جاتا ہے۔ حالانکہ طلب و رسد اور خرید و فروخت کا پیمانہ پرچون نہیں تھوک مارکیٹ ہونا چاہیے تبھی صارف تک جائز نرخ پہنچیں گے۔
اس حوالے سے اپنے میڈیا کے بھائیوں کی توجہ بھی مبذول کراتے ہیں کہ تب یہ تجربہ بھی ہوا کہ جونہی تھوک نرخ بڑھتے ہم اضافے کی خبر بنا کر دیتے، نیوز روم کو بھی اچھی لگتی اور وہ بھی اہتمام سے شائع کرتے۔ اخبار مارکیٹ میں پہنچتے ہی ہرجگہ نرخ بڑھ جاتے اور صارف جھگڑا بھی کرتے کہ گزشتہ روز تو کم تھے ، اس پر بڑی بحث ہوئی اور پھر یہ طے کیا کہ نیوز روم سے درخواست کرکے نرخوں میں کمی کی خبر بھی نمایاں کرائی جائے اور اضافے کی خبر سے حتی الوسع گریز کیا جائے۔ اس سے بھی فائدہ ہوا تاہم یہ دلچسپ صورت حال بھی سامنے آئی کہ قیمت کم ہو جانے پر جب پرچون فروش سے کہا جاتا کہ وہ نئی قیمت لے تو جواب ملتا، پہلا مال ہے جو مہنگا لائے تھے۔ یہ ختم ہو گااور نیا مال لائیں گے تو نئی قیمت پر فروخت کریں گے جبکہ قیمت بڑھنے کی خبرچھپتے ہی نرخ بڑھا دیئے جاتے، سو وزیرخوراک کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ بڑھکیں نہ لگائیں، تھوک اور پرچون کے توازن سے نرخ مقرر کیا کریں کہ اب تو مرغی خانے والے بھی طلب و رسد کی بات کررہے ہیں۔