گڈ گورننس قائم نہ ہونے کی اصل وجہ اداروں میں منظور نظر افراد کا تقررہے : چیف جسٹس

گڈ گورننس قائم نہ ہونے کی اصل وجہ اداروں میں منظور نظر افراد کا تقررہے : چیف ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلا م آباد (آن لائن )چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ حکومتی اداروں کے اندر استحصال اور منظور نظر افراد کو نوازنے کی مثالیں موجود ہیں جو کہ ملازمین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث بن رہے ہیں ، ملک میں گڈگورننس کا قیام نہ ہونے کی اصل وجہ ملکی اداروں میں منظور نظر افراد کا تقرر ہے ،یہ عمل ریاستی اداروں کو کمزور کرتا ہے ان خیالات کا اظہا ر انہوں نے جمعرات کو جسٹس امیرہانی کے اعزاز میں دیئے گئے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی معاشرے کی معاشی ،سیاسی اور سماجی ترقی کی بنیاد ہے ،قانون کی حکمرانی صرف انفرادی حقوق کے تحفظ اورجھگڑوں کے حل تک محدود نہیں بلکہ اس میں آزاد اورموثر عدلیہ ، اختیارات کے غلط استعمال کو روکنا اور قانون کی پابندی کرنے والی حکومت بھی شامل ہے ، حکومتی اداروں کے اندر قانون کی حکمرانی کے بغیر مثالی معاشرے کا قیام ناممکن ہے ،یہ مقصدحاصل کرنے کے لیے کرپشن میں کمی اقربا پروری اور استحصال کو اداروں سے ختم کرنا ہو گااور آئین اور قانون کا سخت اطلاق کرنا ہو گا ، ملک میں قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے لیے قردار مقاصد لائحہ عمل فراہم کرتی ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی ،یکساں معیار زندگی دیا جائے گا،اظہار رائے کی مکمل آزادی ہوگی ، سماجی معاشی اور سیاسی انصاف ،مذہبی آزادی سمیت عدلیہ کی آزادی کو بھی مکمل طور پر محفوظ بنایا جائے گا،آئین میں بنیادی حقوق بھی واضح کردیئے گئے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت عدالت عظمیٰ کو مفاد عامہ کے معاملات میں اقدامات کا اختیار حاصل ہے ،انہوں نے کہا کہ ان حالات کی اہمیت سے آگاہی کی وجہ سے جسٹس امیر ہانی مسلم نے کرپشن ،اقرباپروری اور استحصالی نظام کے خاتمے کا علم اٹھایا اور تاریخ ساز فیصلے سنائے ،انہوں نے محکموں میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے ملازمین کو ضم کرنے آوٹ آف ٹرن پروموشن ،اور سول سروسز کے حوالے سے مختلف مقدمات میں سنائے گئے فیصلوں میں واضح کیا کہ ایسے اقدامات سے صوبائی سول ڈھانچے کو کس حدتک نقصانات پہنچتے ہیں ،جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے فیصلوں میں قرار دیا ہے کہ استحصال اور من پسند افراد کو نوازنے سے ایک متوازی نظام کا قیام بہت سی خرابیوں کا باعث بنتا ہے ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ملک کی عدالتی تاریخ میں انہتائی اہم کردار ادا کیا انکی خدمات کو ہمیشہ یا د رکھا جائے گا ،اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ ملک میں جمہوری نظام پنپنے کے مراحل میں ہے اور عدلیہ اس حوالے سے اپنا اہم کردار جاری رکھے ہوئے ہے ۔جسٹس امیرہانی مسلم نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے بھر پور کردار ادا کیا ،وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل احسن بھون نے کہا کہ جسٹس امیرہانی مسلم نے معیاری انصاف کی فراہمی یقینی بنانے میں کردار ادا کیا اور بنچ و بار کے درمیان تعلقات خوشگوار بنائے ، عدلیہ کے دونوں ستونوں بنچ اور بار کے درمیان پیدا خلا کو پر کرنے کے لیے جہاں وکلاء کو اپنا کردار ادا کرنا ہے وہیں ججز کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ، ذاتی خواہشات کو بالاتر ہو کر ادارے کے تشخص کے لیے کام کرنا ہو گا ، عدالت عظمیٰ کے ججزکو چاہیے کہ ہائی کورٹ کے فیصلوں پر کی اپیلوں پر فیصلے دیتے ہوئے عدالت عالیہ کے ججز پر تنقید کے بجائے فیصلوں میں موجود سقم دور کریں ،اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر اقرباء پروری سے اجتناب کیا جانا چاہیے ،جبکہ ججز کوعوامی عہدے لینے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے ، سپریم کورٹ بار کے صدر رشید اے رضوی نے کہا کہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ملکی تاریخ میں بہت اہم فیصلے دیئے ہیں انہوں نے فوجی عدالتوں کے قیام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام سول حکومتوں کی ناکام ہے۔سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونے والے جج جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا ہے کہ عدلیہ کا حصہ بننے پر معلوم ہوا کہ خاردار رستے پہ چل نکلا ہوں وہ ہر گام آزمائش اور ہر قدم امتحان ہے ، میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جس نے مجھے اس اعلیٰ مقام سے نوازا اور ہر مشکل وقت میں میرے لئے آسانیاں پیداکیں۔ میں ان تمام لوگوں کا جنہوں نے مجھ سے متعلق تعریفی کلمات کہے ان کا بھی تہہ دل سے شکر گزار ہوں،میں کوٹری شہر میں پیدا ہوا اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی۔میں نے گریجویشن گورنمنٹ کالج حیدر آبادسے کی اور لاء کی سند کراچی سے حاصل کی۔ میں اپنے چھ بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا میرے والد 1964ء میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اُس وقت میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ میرے سب سے بڑے بھائی محمد شفیق احمد نے ہم سب بھائیوں کی کفالت کی اور اُن کی شفقت نے مجھے یہاں تک پہنچایا، دورانِ تعلیم میں نے ایک طلبہ تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی جس کی وجہ سے میرے بڑے بھائی پریشان تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر میں نے سیاست میں قدم رکھا تو میں نوکری نہیں کر پاؤں گا۔ لہذا انہوں نے کہا کہ میں وکالت کے شعبے کو اپنا لوں تا کہ دورانِ سیاست اگر میں کبھی جیل جاؤں تو واپسی پر میں وکالت کر سکوں ،اس طرح میں نے وکالت کے شعبہ میں قدم رکھا ۔ میرے خاندان میں مجھ سے پہلے نہ کوئی وکیل تھا نہ کوئی جج ۔ میں نے جب وکالت کی سند پاس کی تو میرے بھائیوں نے مجھے مرحوم خالد ایم اسحاق صاحب کے دفتر میں چھوڑ دیاجہاں پر ان کی شفقت آمیز شخصیت نے وکالت کے پیشے میں سنجیدگی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ میں دورانِ وکالت سندھ گورنمنٹ میں لاء آفیسر رہا اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیئے 7اگست2002ء میں بحیثیتِ جج،سندھ ہائی کورٹ حلف اُٹھاتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں جس خاردار رستے پہ چل نکلا ہوں وہ ہر گام آزمائش اور ہر قدم امتحان ہے لیکن بفضلِ ایزدی اِن آزمائشوں سے نبردآزما ہوتے عدالت عظمیٰ تک آ پہنچا۔ کام بظاہر مشکل نہ تھا مگر جب یہ سوچا کہ اس عدالت کا ہر فیصلہ ایک قانون اور یہ کہ اس عدالت کے بعد اس دنیا میں کوئی اور عدالت نہ ہے یہ کام مشکل تر نظر آیا۔ اس دوران میں نے اپنے محترم برادر ججز اور معزز وکلاء کی معاونت سے متعدد فیصلے کئے۔ میں برمَلا کہتا ہوں کہ بحیثیتِ بشرمجھ سے غلطیاں بھی سر زد ہوئی ہوں گی مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ غلطیاں ارادۃً اور عملاً نہ تھیں۔میں اللہ تعالیٰ سے اپنی ان کوتاہیوں کے لئے بھی معافی کا خواست گار ہوں۔آج میرے محترم رفقائے کار اور معزز وکلاء جس انداز سے مجھے الوداع کہہ رہے ہیں اس بات کا غماز ہے کہ اس امتحان اور آزمائش میں انہوں نے مجھے بغیر رعائتی نمبر دئیے کامیاب قرار دیا ہے۔ میں اسے سرمایۂ منزل خیال کرتا ہوں۔ یہ نا انصافی ہو گی اگر اس موقع پہ میں اپنی شریکِ حیات اور بچوں کا ذکر نہ کروں جنہوں نے ناموافق حالات میں بھی میری ڈھارس بندھائی اور میرے فرائض منصبی کی انجام دہی میں میرے لئے مصائب کے بجائے آسانیاں پیدا کیں۔ میں اپنے سٹاف ممبرز کا بھی نہایت شکر گزار ہوں جنہوں نے دفتری اوقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شب و روز میرے ہمراہ مصروفِ عمل رہتے ہوئے جُملہ امور پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ انہوں نے کہا کہ میں آخر میں آپ تمام حاضرین کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میرے اس ریفرنس میں شمولیت اختیار کر کے میری حوصلہ افزائی کی۔مجھے یقین کامل ہے کہ محترم جسٹس میاں ثاقب نثار، چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان عدالتِ عظمیٰ اس ادارے کو مزید مضبوط کریں گے اور وہ اُمیدیں جو عوام نے اس ادارے سے منسلک کر رکھی ہیں وہ اس پر پورا اُتریں گے۔جسٹس امیرہانی نے کہا کہ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ادارے کے لئے آسانیاں پیدا کرے اور ہمارا ادارہ اسی طرح انصاف کو عام آدمی تک پہنچاتا رہے۔ اور میں آپ سب لوگوں سے دعا کا خواہش مند ہوں کہ میری بعداز ریٹائرمنٹ کی زندگی میں اللہ تعالیٰ میرے اور میرے خاندان کے لئے دُنیا اور آخرت میں آسانیاں پیدا کرے۔