فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر394
خانم کو بھٹی صاحب نے ایک سرائیکی فلم میں ہیروئین کے طور پر پیش کیاجس کا نام ’’دھیاں نمانیاں‘‘تھا۔ عنایت بھٹی اس فلم کے ہدیت کار اور عاشق حسین (جو نہ تو بھٹی تھے اور نہ ہی عنایت حسین سے ان کا کوئی تعلق تھا)اس فلم کے موسیقار تھے۔فلم کے اداکاروں میں اسد بخاری ،صاعقہ اور خود عنایت بھٹی بھی شامل تھے۔یہ فلم 1973 میں ریلیز ہوئی اور بہت کامیاب ہوئی ۔اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے خانم کی بطور ہیروئن پہلی ہی فلم کامیابی سے ہمکنار ہو گئی تھی۔اس طرح خانم کا شمار باقائدہ ہیروئنوں میں ہونے لگا جس کا سہرا عنایت حسین بھٹی کے سر تھا۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر393 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دلچسپ بات یہ ہے کہ عنایت حسین بھٹی نے خانم کو اگلی بار ایک پنجابی فلم میں ہیروئین کی حیثیت سے پیش کیا۔اس فلم کا نام چیخ تھا ۔اس کے فلم ساز ندیم عباس اور ہدائت کار کیفی تھے۔ ماسٹر عنایت حسین موسیقار نے اس فلم کی موسیقی ترتیب دی تھی ۔ اسکے اداکاروں میں خانم کے علاوہ غزالہ ،اسد بخاری اور کیفی شامل تھے۔تقدیر کا ستارہ ان دنوں عنایت حسین اور کیفی پر مہربان تھا ۔ان کی اکثر فلمیں کامیاب ہو رہی تھیں ۔چیخ بھی ایک کامیاب فلم تھی جو 1974 میں ریلیز ہوئی تھی اس خانم کی ایک اور فلم ،بابل صدقے ، نمائش کے لیے پیش کی گئی اور ناکام ہو گئی حالانکہ اسلم ڈار جیسے کہنہ مشق اور کامیاب ہدایت کار نے بنائی تھی ،اس کے موسیقار کمال احمد تھے ۔خانم کے ساتھ شاہد اس فلم میں ہیرو تھے۔ عا لیہ اور سلطان راہی جیسے نام بھی اس فلم میں شامل تھے لیکن یہ ناکام ہو گئی۔اس ہیروئن کی حیثیت سے خانم کی کامیابی اور ناکامیوں کا حساب برابر ہو گیا۔اس طرح خانم کی اداکاری کا دور شروع ہو ا۔
خانم نے پاکستا ن کی سبھی زبانوں میں بنائی جانے والی فلموں میں کام کیا ہے۔اردو ، سرائکی ،سندھی پنجابی اور پشتو فلموں میں انہوں نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ان کا آغاز اردو فلموں سے ہوا اور انجام پشتو فلموں پر ہوا۔
عنایت حسین بھٹی کا ساتھ خانم کو ایسا راس آیا کہ اگلی بار ایک سال میں ان کی پانچ فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ان میں ایک سرائیکی فلم ’’رب دا روپ‘‘ کے فلم ساز ندیم عباس اور ہدایت کار کیفی تھے۔صفدر حسین نے اس کی موسیقی بنائی تھی ۔ عنایت حسین بھٹی کے ساتھ بہار بھی اس فلم کی کاسٹ میں شامل تھیں ۔ظاہر ہے اس فلم کی ہیروئین خانم ہی تھیں۔یہ فلم کامیاب رہی ۔دوسری فلم پنجابی زبان میں تھیاس کا نام’’ فرض تے اولاد‘‘ تھا۔ملک نثار احمد اس کے ہدایت کار تھے ۔موسیقا ر رفیق بھی تھے ۔نغمہ، حبیب ،اسد بخاری اور مسعود اختر بھی اس فلم کے اداکاروں میں شامل تھے۔یہ سب اس وقت پنجابی فلموں کے بڑے نام تھے ۔پنجابی فلم ’’چھڈ برے دی یاری‘‘آسیہ ،اقبال حسن،اورنگزیب ، اور افضل خان جیسے اداکار خانم کے ہمراہ اس فلم میں تھے لیکن یہ فلم ان بڑے ناموں کے باوجود یہ فلم ناکام ہوگئی۔پنجابی فلم ،بابل ڈاکو،بھی اس سال ریلیز ہوئی تھی اس میں خانم، روزینہ، اقبال حسناور افضل خان نمایاں اداکارتھے مگر یہ بھی زیادہ کامیابی حاصل نا کر سکی ۔
اسی سال 1974ء میں خانم کی پہلی پشتو فلم، کو چوان،ریلیز ہو ئی تھی جس کے فلم سا ز محمد اکرم پپو اور ہدایت کار یوسف بھٹی تھے ۔موسیقی رفیق شنواری نے مرتب کی تھی۔اس کے اداکاروں میں بدر منیر اور نعمت سرحدی بھی شامل تھے ۔حسین اتفاق یہ ہے خانم کی پہلی پشتو فلم بھی بہت کامیاب زیادہ کامیاب ہوئی اور وہ پہلی ہی فلم سے پشتو فلموں کی کامیاب اور مقبول ہیروئن بن گئیں۔اس کے بعد خانم کی پنجابی اور پشتو فلموں کادور شروع ہو گیا ۔جن میں کامیاب فلموں کا اوسط زیادہ تھا ۔ان فلموں نے خانم کو ایک کامیاب اداکارہ بنا دیا۔
1989میں ان کی پہلی سندھی فلم ،سنن جو پیار،نمائش کے لیے پیش کی گئی تو وہ بیک وقت پانچ زبانوں میں کام کرنے والی واحدہیروئن بن گئیں۔یہ ان کا ہی کریڈٹ ہے،انکے بعد کسی اور اداکارہ کو یہ مقام نہیں ملا۔اس فلم کے فلم ساز شیر محمد لاشاری اور ہدایت کار صمد شیخ تھے ۔موسیقی ظفر علی نے ترتیب دی تھی۔اداکاروں میں انور اقبال ،شکیلہ اور شہزادی شامل تھے۔یہ ایک کامیاب فلم تھی مگر خانم کو پشتو فلمیں زیادہ راس آئیں۔ان کی پشتو فلم ،انگار ، بہت کامیاب ہوئی۔اس کے ہدایت کار عنایت اللہ اور موسیقار رفیق شنواری تھے ۔بدر منیر شہباز درانی ،اور بیدار بخت بھی اس کے اداکاروں میں شامل تھے۔خانم کی چند فلموں کے نام ذیل میں دئیے جا رہے ہیں۔
شرط(پنجابی)فٹافٹ(پنجابی)غضب (پشتو)ضدی،پختون ،پڑانگ(پشتو)مرزا جٹ(پنجابی)پیسہ(پشتو)تابہ فرمان (پشتو)نمک حلال ،کاکا جی ،لال طوفان (پنجابی)حیدر خان (پنجابی)نہلا دہلا (سرائیکی)شک(اردو)حقدار اورجائیداد (پشتو )شک کو پشتو میں دشمن کے نام سے پیش کیا گیا تھا ۔اس زمانے میں اردو پنجابی اور اردو پشتو فلمیں بنانے کا رجحان چل پڑا تھا۔اس طرح کی فلموں میں اصلی زبان کی فلموں کو پسند کی جاتی تھی جبکہ دوسری زبان کی فلمیں اتنی زیادہ پسند نہیں کی جاتی تھی ۔سچ پوچھئے تو ا س رجحان نے فلمی صنعت کو فائدے کی بجائے نقصا ن پہنچایا تھا۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر395 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں