بیٹی کے بیاہ پہ خصوصی کالم
آج کے موضوع پہ کالم لکھنے کا ارادہ کر کے مَیں خود کو ایک غیر معمولی صورتحال سے دوچار کر رہا ہوں ۔ بنیادی رِسک تو قارئین کی طرف سے خود پسندی کا امکانی الزام ہے ۔ پھر یہ بھی کہ گرد و پیش میں کئی سنجیدہ مسائل کے ہوتے ہو ئے تم اپنے بال بچوں کی کہانیاں سنانے پہ کیوں مصر ہو ۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ شادی کی تقریب میں شاید کوئی واقعہ خلافِ توقع ہو گیا ۔
یعنی بارات کی آمد پہ دولہا کے لئے جو ہار ہزار احتیاط سے سنبھال کر رکھا تھا وہ عین وقت پہ ڈبے سے غائب پایا گیا یا دلہن کے باپ نے دمِ رخصت کیمرے کے سامنے زور کی چھینک مار دی اور وڈیو خراب ہو گئی یا پھر باراتی اتنی تعداد میں امڈ آئے کہ کھانا کم پڑ گیا ۔ خدا کی قسم ایسی کوئی بات نہیں ۔ سبھی کچھ معمول کے مطابق ہوا ۔ اور یہی مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ یہ پینڈو اردو میڈیم کالم نویس نئے زمانے میں شادی بیاہ کے معمولات سے پوری طرح آ گاہ ہی نہیں تھا ۔
ایک خوش قسمتی یہ ہوئی کہ رشتہ طے کرنے کے مرحلے پر بیٹی کو اجنبی مرد و خواتین کے سامنے ٹرالی پھدکانے کی خفت نہیں اٹھانی پڑی ۔
وجہ یہ کہ دونوں خاندانوں میں باہمی جان پہچان کا تسلسل محض ’’دو ، چار برس کی بات نہیں‘‘ ۔ وگرنہ اُس کے دل پہ کیا گزرتی ، یہ اندازہ لگانا اس لئے مشکل نہیں کہ اولاد سے ملکیتی تعلق جوڑے بغیر بھی مجھے رابعہ ملک اب تک اپنا ہی نسوانی ایڈیشن محسوس ہوتی رہی ہیں ۔
ذہنی قربت یہاں تک کہ غیر ملکی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ والدین سے منسوب کرنے کے باوجود محترمہ نے اساتذہ ، ہم مکتب دوستوں اور فنی عملے کے لئے شکر گزاری کا تحریری اظہار تو کیا مگر ماں باپ کو یہ کہہ کر جھنڈی کرا دی کہ جب یہ دونوں میرے ہر فیصلے کی بھرپور تائید کرنے پہ تُلے ہوئے ہیں تو اِن کا رسمی شکریہ ادا کرکے اِس باہمی اعتماد کی قدر و قیمت کو کم کیوں کیا جائے ۔
مَیں افسروں کی سالانہ رپورٹ کی طرح رابعہ ملک کی اے سی آر لکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ لکھوں بھی تو اُن کی ’پین پکچر‘ یا قلمی خاکے سے انصاف کر نا آسان نہیں ۔ ہاں ، اِس پہ حیرت ضرور تھی کہ ایک پڑھی لکھی لڑکی کی ارینجڈ میرج ہو رہی ہے ۔
یہ نہیں کہ ایک ’اچھا لڑکا‘ دیکھ کر ہم نے اپنی مرضی رابعہ پہ مسلط کردی ۔ توبہ توبہ ، اِس سے بڑی غلط بیانی کیا ہوگی ؟ بارہا سنا کہ ’’امی ، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ کسی نے انجنئیرنگ کی ہوئی ہے یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے ۔ کار اور کوٹھی ہے ۔
گھر والے شریف لوگ ہیں ۔ یار ٹھیک ہے ، لیکن آدمی میں کوئی رنگ تو ہونا چاہئیے‘‘ ۔ جواب ہمیشہ یہی تھا کہ بیٹا ، بالکل صحیح ۔ یوں پچھلا ڈیڑھ سال ای میل ، ٹیکسٹنگ اور فون کالز پر دونوں طرف رنگ ہی چیک ہوتا رہا اور آخر کار طے پایا کہ ٹرنٹی کالج ڈبلن کی بجائے پاکستان میں تدریسی ذمہ داری سنبھالی جائے ۔ ’’گل ہوئی نا ‘‘ میرے اندر کے پاکستانی نے بر جستہ کہا تھا ۔
یہاں پہنچ کر آپ پوچھنا چاہیں گے کہ شاہد ملک ، کالم کی ابتدا رسمِ شادی کے جن حقیقی یا خیالی معمولات کے ذکر سے ہوئی تھی ، اُن کا کیا بنا ۔ اِس پر میری گزارش سیدھی سادی سی ہو گی ، بس یہی کہ مذہبی اور قانونی پہلوؤں سے بنیادی اہمیت کا نکتہ تو نکاح کی تقریب ہے ۔ چنانچہ یہ اہتمام کر لیا تھا کہ پرانی روایت کے بر عکس نکاح نامہ کے وہ کالم قلم زد نہ کر دئے جائیں جن میں دلہن کے حقوق کی بات کی جاتی ہے ۔
اسی طرح بادشاہی مسجد کی لکیر کی فقیر انتظامیہ کے برعکس ہمارے مقامی نکاح رجسٹرار ، جو صاحبِ علم ہی نہیں کشادہ ذہن بھی ہیں ، بخوشی آمادہ تھے کہ دلہن کو الگ کمرے میں بند کر نے اور نکاح کی قبولیت حاصل کے لئے بھائی ، چچا یا ماموں کا بطور وکیل تقرر کوئی شرعی تقاضا نہیں ۔ بس دولہا دلہن کسی پراپرٹی ڈیلر کے بغیر آمنے سامنے بیٹھ کر فارم پہ دستخط کر یں ۔
یہ سب کچھ تو ہو گیا ۔ پروسیجر کی مار مجھے کسی اور زاویے سے پڑی ہے ۔ وہ یوں کہ مَیں نے دبے دبے لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ زندگی گزارنے کے پیرایوں میں ہمارا آئیڈیل نبیء کریم (ﷺ) کی ذات اور اُن کا خانوادہ ہونا چاہئیے ۔ ظاہر ہے میرا اشارہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی طرف تھا ، جن کی شادی رہتی دنیا تک سادگی کی مثال ہے ۔ میرے اکثر عزیز و اقارب تنخواہ دار لوگ ہیں اور نو دولتیا کلچر کی نشانیاں اُن میں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
پھر بھی بچپن سے کتابوں میں پڑھا ہوا مذکورہ حوالہ دہرانے کی دیر تھی کہ میرے گرد سطحِ آب کے نیچے تموج کی مضطرب لہریں اٹھنے لگیں ۔ ’’آپ اپنا موازنہ اہلِ بیت سے کر رہے ہیں ۔ خدا کا خوف کریں کہ وہ تقوے کا بہت اونچا درجہ ہے ‘‘ ۔ میرا مقصد تبلیغِ اسلام نہیں تھا ، لیکن سماجی حقائق میری سمجھ میں اپنے ہی طریقے سے آتے ہیں ۔
اب مجھ پہ ’پینڈو اردو میڈیم‘ کا لیبل تو خیر لگے گا ہی ، لیکن یہ مان کر چلوں کہ شادی بیاہ کی تازہ رسومات سے میری آشنائی ابھی نئی نئی ہے ۔ پہلی بار اِس کا موقع سالِ نو کے آغاز پر عزیزم حاذق نقوی کی تقریبِ عروسی پہ ملا تھا جب دولہا میاں نے دھمکی دی کہ آپ مہندی ، بارات اور دعوتِ ولیمہ تینوں میں شریک ہوں گے ورنہ وہی فلمی جملہ کہ ’’یہ شادی نہیں ہو سکتی‘‘ ۔
سوچا کہ چلو میری شرکت سے جہاں دولہا کا دل خوش ہو گا ، وہاں رابعہ ملک کے نکاح کے لئے جو23 مارچ کو یومِِ پاکستان کے موقع پہ ہونے والا ہے ، مسلح افواج کی پریڈ والی فل ڈریس ریہرسل بھی ہو جائے گی ۔ حاذق نقوی کی شادی پر تینوں دن خوش دلی کی فضا رہی ، مگر جو جدید موسیقی سننے کو ملی وہ میوزک کی کسی نثری شاعری سے تعلق رکھتی تھی ۔ مجھے کیا پتا تھا کہ رابعہ کے بیاہ پہ بھی یہی لاؤ ڈ میوزک سننا پڑے گا ، جس میں تال تو ہے سُر نہیں ہیں ۔
اب کہانی میں ایک نازک موڑ آنے والا ہے ۔ ایک تو اِس لئے کہ میرے نزدیک ’’رگِ جاں کا کوئی رشتہ ہے رگِ ساز کے ساتھ‘‘ سو آواز ایک خاص رینج سے باہر نکل جائے تو میری جان نکلنے لگتی ہے ۔ ابا کے ایک کان رس جالندھری دوست کے بقول ’’اک وڈا کلا ونت بے سُرا ہو گیا ، جا کے ویکھیا خاں صاحب مرے پے سی‘‘ ۔ دوسری مشکل یہ کہ ہر گانا سُن کر اُس کی تعریف نہیں کی جا سکتی ۔
البتہ رابعہ ملک کی شادی میں شمولیت کے لئے اُن کی پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کے جو نصف درجن ہمکار آئس لینڈ ، میکسیکو ، جرمنی اور سنگا پور سے لاہور پہنچے (ڈرنے کی ضرورت نہیں ، محدود وسائل والے سیدھے سادے لوگ تھے) ، انہوں نے حد کر دی ۔ پورے گروپ نے پاکستانی گانا بھی گایا اور دوسروں کے ہر بے سُرے گیت پہ ’’ونڈر فُل ، ویری انجوئے ایبل‘‘ کہہ کر داد بھی دی ۔ بی بی سی کے سید اطہر علی کی طرح مجھے بھی لگا کہ بانس پہ ساڑھی لٹکا دو ، گورا اُس پہ بھی عاشق ہو جائے گا ۔
اصل ناٹک تو رخصتی کے مرحلے پہ ہوا جب مجھ سے کہا گیا کہ آپ دلہن کے باپ کے طور پہ قدم بہ قدم کار تک چل کر جائیں ۔ لکڑی کا پل صراط جس سے گزرنا پڑا زیادہ چوڑا نہیں تھا ۔ مَیں ساتھ ساتھ چل پڑا تو فوٹو گرافر نے ڈانٹا کہ فریم ٹھیک نہیں بن رہا ، ذرا پیچھے ہو جائیں ۔ اب جو پیچھے ہوا ہوں تو رابعہ کی آواز سنائی دی ۔ ’’ابو ، آپ کا جوتا میرے غرارے پہ پڑ رہا ہے‘‘ ۔ مجھے مرحوم شاعر ساقی فاروقی یاد آ گئے جو قیامِ لندن کے ابتدائی دنوں میں مسافروں سے کھچا کھچ بھری ٹیوب میں مشکلوں سے سوار ہوئے تو بے خیالی میں اُن کا بھاری بھرکم بوٹ ٹرین میں پہلے سے کھڑی ایک میم کے پاؤں پہ جا پڑا ۔
میم نے کہا ’’ڈو یو مائنڈ؟‘‘ مراد تھی کہ کچھ حیا کرو۔ ساقی صاحب نے معصومیت سے کہا ’’نو، آئی ڈونٹ مائنڈ‘‘۔ بوڑھے شاہد ملک کو نوجوان ساقی فاروقی سے زیادہ انگریزی آتی ہے ، سو وہ ایک فُٹ اور پیچھے ہو گیا ۔
آخری امتحان ولیمہ کی دعوت پر غیر ملکی مہمانوں کو لاہور کینٹ کے ڈیفینس آفیسرز میس میں لے جانے کا تھا ، جس کے لئے قانون کے مطابق کور ہیڈ کوارٹرز سے اجازت نامہ حاصل کیا گیا ۔
شیرپاؤ برج کے راستے چھاؤنی کی حدود میں داخل ہوئے تو سکیورٹی عملے کا رویہ نہایت شائستہ تھا ۔ پاسپورٹ اور ویزے چیک کئے گئے اور رجسٹر میں اندراج ہوا ۔ قانون شکنی تو ڈنر کے مینیو میں ہوئی ہے کہ سنگل ڈش کی جگہ پلاؤ کے ساتھ سیخ کبابوں سمیت تین تین پکوان ۔ تو کیا شیر پاؤ پُل کے پار صوبائی حکومت کی پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا ؟ کباب دیکھ کر جی تو میرا بھی للچایا لیکن نیب کے خوف سے ہمت نہ ہوئی ۔
وہ میز خاصی دور تھی جس پہ ماضی کے تین اور چار ستاروں والے احباب نے کھانا کھایا ہے ۔ ایک صاحب جنہوں نے میرے سامنے سنگل ڈش قانون کی پابندی کی وہ ایک معروف یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں ۔ میرا باطن مطمئن ہے کہ دلہن رابعہ ملک کو بھی گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے پر اِسی یونیورسٹی میں پڑھانے کا پروانہ مل گیا ہے۔