اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 115
قاضی حمید الدین ناگوریؒ جب ہندوستان آئے اور دہلی میں رہنے لگے تو سماع کی محفلیں جمنے لگیں۔ جن میں شریک ہونے والے درویشوں کو وجد آتا۔ بادشاہ التمش کے چند علماء دربار نے اس کو آبادہ کیا کہ وہ قاضی صاحب کو سماع سے منع کرے۔
چنانچہ سلطان نے قاضی حمید الدین ناگوریؒ کو بلوایا اور جب وہ آئے تو بڑی عزت سے انہیں اپنے پاس بٹھایا۔ پھر ان علماء کو بلوا کر کہا کہ وہ خود قاضی صاحب سے سوال کریں۔ انہوں نے کہا ’’بتائیے شرع اسلام میں سماع (قوالی) حرام ہے یا حلال؟‘‘ قاضی صاحب نے جواب دیا کہ ’’قال پر حرام ہے اور اہل حال پر حلال۔‘‘
اس کے بعد سلطان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ آپ کو وہ رات یاد ہے جب آپ کے مالک کے گھر پر درویش قوالی سن رہے تھے اور آپ اپنے مالک کے حکم سے رات بھر چراغ کا گل کترتے رہے تھے اور درویشوں نے آپ پر لطف کی نظر ڈالی تھی۔ آج یہ اسی نظر کی برکت ہے جس کی برکت سے آپ تخت سلطنت پر بیٹھے ہیں۔
یہ سن کر سلطان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور رقت طاری ہوگئی۔ اس نے قاضی صاحب کو اپنے برابر بٹھالیا۔ اس کے بعد سے وہ خود سماع کی محفلوں میں شریک ہونے لگا اور درویشوں کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتا رہا۔
یاد رہے کہ بادشاہ التمش کسی زمانے میں غلام تھا۔ حضرت حمید الدین ناگوریؒ نے بادشاہ کو اس کے عہد غلامی کی یاد دلائی ہے۔
***
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 114 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کسی عورت نے حضرت جنیدبغدادیؒ سے اپنے گمشدہ بیٹے کے مل جانے کے لیے عرض کیا آپ نے اسے فرمایا ’’صبر سے کام لو۔‘‘ یہ سن کر وہ عورت چلی گئی اور کچھ روز صبر کرنے کے بعد پھر خدمت میں حاضر ہوئی لیکن پھر آپ نے صبر کی تلقین فرمائی۔ وہ عورت پھر واپس ہوگئی لیکن جب طاقت صبر بالکل نہ رہی تو پھر حاضر ہوکر عرض کیا کہ اب تاب صبر بھی نہیں ہے۔‘‘
آپ نے فرمایا کہ ’’اگر تیرا قول درست ہے تو جا تیرا بیٹا تجھے مل گیا۔‘‘ اس پر جب وہ عورت اپنے گھرمیں داخل ہوئی تو بیٹے کو بیٹھے ہوئے پایا۔
***
ایک دن ایک بوڑھے نے حضرت شیخ بایزیدؒ کے پاس آکر توبہ کی اور آپ کا مرید ہوا اور کہا ’’افسوس بوڑھا ہوگیا ہوں اور آپ کی خدمت میں بے وقت حاضر ہوا ہوں۔‘‘
آپ نے فرمایا ’’چونکہ تم مرنے سے پہلے آئے ہو۔ اس لیے بروقت آئے ہو۔‘‘
چنانچہ تھوڑے دنوں میں وہ بوڑھا عارف ہوگیا۔ جناب رسول خدا ﷺ کا فرمان ہے۔ ’’آدمی کے آخری سانس کے وقت تک خدا اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔‘‘
***
خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ فرماتے ہیں کہ جس زمانہ میں مَیں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی خدمت میں مشغول تھا۔ ایک دفعہ ہم ایک ایسے بیاباں میں پہنچے جہاں کسی جاندار کا نام و نشان تک نظرنہ آتا تھا۔ تین دن اور تین راتیں ہم متواتر اس بیاباں میں چلتے رہے۔ آخر معلوم ہوا کہ اس بیابان کے نزدیک ایک پہاڑ ہے۔ اس میں ایک بزرگ رہتے ہیں۔
جب ہم اس پہاڑ کے قریب پہنچے تو خواجہ صاحبؒ نے مجھے اپنے قریب بلایا اور مصلےٰ کے نیچے سے دو تازہ گرم روٹیاں نکال کر دیں اور کہا کہ یہ دو روٹیاں پہاڑ کے اندر ایک بزرگ بیٹھے ہیں ان کو دے آؤ۔‘‘
میں روٹیاں لے کر ان کی خدمت میں گیا اور سلام عرض کرکے پیش کردیں۔ انہوں نے ان میں سے ایک روٹی تو اپنے افطار کے لیے رکھ لی اور ایک مجھے دے دی۔ پھر انہوں نے اپنے مصلےٰ کے نیچے ہاتھ ڈال کر چار کھجوریں نکالیں اور فرمایا ’’یہ شیخ معین الدینؒ کو پہنچا دو۔‘‘ جب مَیں نے آکر وہ کھجوریں خواجہ صاحبؒ کی خدمت میں پیش کیں تو آپ بہت خوش ہوئے۔
***
جب کسی کا فاتحہ قل ہوتا تو حضرت وارث علی شاہ کھانا تناول نہ فرماتے۔ بروز عاشورہ محرم جب تک تعزیہ چوک سے نہ اُٹھ جاتا، آپ کھانا نہ کھاتے۔ آفتاب یا ماہتاب میں جب گرہن پڑتا۔ جب تک وہ صاف نہ ہوجاتے آپ کھانا نہ کھاتے۔ پانی کے برتن بند رکھنے کو آپ اندر زنانے میں اکثر فرماتے تھے۔
شاہ فضل شاہ صاحب مرحوم راوی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور شاہ صاحبؒ شاہ مینا صاحبؒ کے مزار پر تشریف لے چلے، ہم بھی ہمر کاب تھے، جب گول دروازہ کے نزدیک پہنچے فرمایا کہ ’’فضل حسین تھوڑے بتاشے مول لیتے آؤ۔‘‘
مَیں نے حسب الحکم بتاشے تولے لیے مگر راستہ میں عرض کیا اور کوئی مٹھائی حکم ہوتو لیتا آؤں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں بتاشہ اچھی چیز ہے۔ اس کے کھانے کے وقت جو چرچراہٹ ہوتی ہے اس سے اللہ کا نام نکلتا ہے۔ قل یا فاتحہ میں بتاشے شریک کرنا عمدہ بات ہے۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 116 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں