سیاست نام ہی عوام کی خدمت کا ہے کیا حقیقت میں ایسا ہورہا ہے؟
کورونا وائرس نے دنیا بھر کی سپر طاقتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس وائرس کے سامنے دنیا کی سبھی سپر طاقتیں ناکام ہو گئی ہیں اور انہوں نے اس وائرس کے سامنے گھٹنے بھی ٹیک دئیے ہیں یہاں پر ایک بات پھر خالق کائنات نے عملی طور پر بتا دیا ہے کہ میں ہی جو چاہوں گا وہی ہوگا، بیماری بھی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور شفا بھی میرے اللہ کے حکم سے ہی ملتی ہے ہم یہاں ذکر کرنا چاہتے ہیں کہ اس قدرتی آفت نے بھی کیا ہمارے ضمیروں کو جھنجوڑا ہے کہ نہیں اگر ہم ویسٹرن کنٹری کا زکر کریں تو انہوں نے تو یقینی طور پر اس وائرس سے سبق حاصل کیا ہے اور وہ مشکل کی اس گھڑی میں جہاں تک ممکن ہو رہا ہے ایک دوسرے کی مدد بھی کررہے ہیں، لیکن اگر ہم اپنے وطن کی بات کریں تو افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑے گا کہ ہمارے پاکستان کے کچھ تاجر حضرات ابھی بھی ناجائز منافع خوروی سے باز نہیں آ رہے ہیں اور وہ اس نازک موقع پر بھی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں، جبکہ مغرب کے کچھ ممالک نے تو سڑکوں پر اپنے عوام کے استعمال کی اشیاء کو رکھ دیا ہے تاکہ جس کو جس کسی بھی چیز کی ضرورت ہے
وہ اٹھا کر لے جائے، ہم نے اپنی تحریر کا عنوان منتخب کیا ہے کہ سیاست کا مقصد ہی عوام کی خدمت ہے مگر افسوس ہمارے ہاں یہ چیز بھی ناپید ہو چکی ہے ہم الیکشن کے دنوں میں جب اپنی عوام سے ووٹ لینے کے لئے جاتے ہیں تواس وقت تو ہم بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ ہم اپنے ووٹرز کے لئے بہت کچھ کریں گے مگر اب جب اس وائرس کی شکل میں ہمیں ایک قدرتی آفت نے گھیر لیا ہے تو ووٹ لینے والے ہمارے یہ سیاسی عناصر نہ جانے کہاں جا کر چھپ گئے ہیں ان کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ایسا کون سے علاقہ ایسی کونسی آبادی ہے کہ جہاں پر دہیاڑی دار لوگوں کا بسیرا ہے یہ لوگ کیوں نہیں ان کے گھروں میں جا کر خاموشی کے ساتھ رات کے اندھیروں میں انہیں راشن پہنچانے کا کام کر رہے ہیں، کیا وہ یہ کام اس لئے نہیں کررہے ہیں کہ میڈیا پر اس کی ان کی کوئی تشہیر نہیں ہو گی یا پھر لوگ ان کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔
اس وجہ سے یہ لوگ خدمت کا کام کرنے سے کنی کترا رہے ہیں اگر یہ لوگ واقعی سیاست کرنا چاہتے ہیں تو سیاست تو نام ہی خدمت کا ہے اور اس کے لئے کسی سرکاری عہدے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دل اور گردے کی ضرورت ہوتی ہے میں تو اتنی سی بات جانتا ہوں کہ ایک ہوتے ہیں زہنی طور پر غریب اور ایک ہوتے ہیں زہنی طور پر امیر مال و دولت سے نہ تو کوئی امیر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی غریب ہوتا ہے اصل بات تو ہوتی ہے دل گردے اور حوصلے کی اپنے لئے تو ہر کوئی جیتا ہے، اصل بات تو تب ہوتی ہے کہ جب آپ کسی دوسرے کے لئے جئیے اور کسی دوسرے کے لئے کام آئیں، ہمارا دین بھی تو ہمیں یہی سکھاتا ہے ہم سخاوت کے لئے رمضان کے شروع ہونے کا کیوں انتظار کررہے ہیں ہم ابھی سے بھی تو یہ کام کر سکتے ہیں اس وقت عملی طور پر ایمرجنسی نافذ ہو چکی ہے اور اگر اب بھی ہم اپنی مخلوق کی مدد نہیں کریں گے تو پھر کب کریں۔
یہاں پر ایک بات قابل زکر ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ کچھ لوگ مذہب و نسل اور مسلک سے بھی بالا تر ہو کر کام کررہے ہیں اور ایسے لوگ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں کہ لاہور کے علاقے ڈی ایچ میں پیپلز پارٹی اقلیتی ونگ کے رہنما ایڈون سہوترا اپنے قریب واقع نشاط کالونی کے غریبوں میں رات دن راشن تقسیم کرنے کا کام کررہے ہیں اور قابل زکر بات یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ مسلم لوگوں کو راشن تقسیم کررہے ہیں جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثر ہو کر گھروں میں قید ہو کررہ گئے ہیں اب تک وہ خاموشی کے ساتھ ہزاروں لوگوں کو راشن دے چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کا حکم ہے کہ ہم نے اس ناز ک ایشو پر کوئی سیاست نہیں کرنی ہے بلکہ عوام کی خدمت کرنی ہے اور خدمت یہی ہے کہ خاموشی کے ساتھ اپنے ارد گرد رہنے والے غریبوں کو ان کے گھروں میں جا کر راشن دیا جائے۔
یہاں ہمیں یہ بات بھی کرنی پڑے گی کہ اس وقت بہت سے سرمایہ دار جاگیر دار اور کاروباری لوگ اس وقت حکمران جماعت پی ٹی آئی کا حصہ ہیں مگر وہ لوگ عملی طور پر ابھی بھی لوگوں کی خدمت کے لئے میدان میں نہیں آئے ہیں اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں کہ وہ ریلیز ہو اور اسی کو ساتھ لیکر ہم لوگوں کے گھروں میں جائیں اور پھر سیاست چمکائیں، لیکن میں کروڑوں روپے خرچ کرنیوالے اس مرحلے پر اپنی جیب سے ایک روپیہ خرچ کرنے سے بھی گھبرارہے ہیں نہ جانے یہ لوگ کب اس بات کو سمجھیں گے کہ سیاست نام ہی عوام کی خدمت کا ہے اگر اس وقت آپ کسی بھوکے کے دروازے پر بن مانگے ہی راشن لیکر جائیں گے تو وہ اس بات کو تب تک یاد رکھے گا جب تک وہ زندہ رہے گا، مگر شاید ہمارے سیاسی لوگوں کواس بات کی عادت سی ہو گئی ہے کہ ہم نے اپنی زاتی تشہیر کے بغیر کوئی بھی کام نہیں کرنا ہے
ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگوں کو سبق سکھانے کے لئے ہی اللہ نے اس وائرس کی شکل میں ایک وارننگ دی ہے کہ خود کو ٹھیک کرلو وگرنہ یہ وائرس تو امیر غیرب کا فرق بھی نہیں کررہا ہے اگر برطانوی شہزادے کو یہ وائرس ہو سکتا ہے اور دنیا کی خود کو سپر پاور کہنے والا امریکہ اس کے آگے جھک سکتا ہے تو ہمیں بھی ابھی سے اپنے اللہ سے دل سے معافی مانگنی ہو گی اور اس کی مخلوق کی مدد کرنی ہو گی ایسا کرنے سے ہی ہم اللہ کے عذاب اور غصے سے بچ سکتے ہیں اگر اب بھی ہم نے اللہ کے غریب بندوں کا ہاتھ نہ تھاما اور ان کے گھروں کے چولہوں کو ٹھنڈا ہونے سے نہ بچایا تو پھر ہو سکتا ہے کہ یہ کورونا وائرس ہمیں اتنی بھی مہلت نہ دے ہر اس شخص کو آگے آنا ہو گا جو کہ اس وقت مالی طور پر دولت مند ہے اور اس کو اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے اس لئے خرچ کرنا ہو گا کہ اس کے اس مال پر اللہ کے غریبوں کا اس سے بھی زیادہ حق بنتا ہے یہی ہمارا مذہب بھی ہمیں سکھاتا ہے۔