’میں‘ اور ’ہم‘ 

 ’میں‘ اور ’ہم‘ 
 ’میں‘ اور ’ہم‘ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 رمضان المبارک کا مقدس و محترم مہینہ شروع ہونے میں بس چند ہی روز باقی ہیں اور حسبِ سابق ذخیرہ اندوز اور منافع خور مافیا کئی ہفتے پہلے سے متحرک ہو چکا ہے۔ پنجاب حکومت نے 8 ارب روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ 13 اشیا 2021 کے ریٹ پر ملیں گی۔ صرف آٹے پر 4 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے‘ لیکن صورت حال یہ ہے کہ لاہور شہر میں آٹا دستیاب ہی نہیں ہے۔ باقی شہروں میں کیا صورت حال ہو گی‘ اس کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ مارکیٹ میں سبزیاں 20 روپے فی کلو تک مہنگی کر دی گئی ہیں اور چکن 403 روپے فی کلوگرام کی نئی اونچی سطح تک پہنچ گیا ہے۔ پیاز‘ ٹماٹر‘ سبز مرچ‘ ہرا دھنیا‘ لیموں‘ ٹینڈے‘ بینگن‘ گاجر‘ بند گوبھی‘ پھول گوبھی‘ شلجم‘ غرض گھروں میں ہانڈی روٹی کے لئے استعمال ہونے والی تمام اشیا کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ کھانوں میں استعمال ہونے والے تیل کو تو جیسے پر لگ گئے ہیں۔ 2018 میں یہ 180 سے 200 روپے کلو تک ملتا تھا‘ اب اس کے نرخ ڈبل سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں۔ اس طرح رمضان المبارک میں اشیا کی قیمتیں نہ بڑھنے دینے کے تمام تر دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر رمضان المبارک سے پہلے یہ حالات ہیں تو ماہ مقدس شروع ہونے کے بعد کیا صورت حال ہو گی۔ غریب آدمی کے تو پسینے چھوٹ جائیں گے۔ چھوٹ جائیں گے کیا‘ چھوٹ رہے ہیں۔


دنیا بھر کے ممالک میں مسلمانوں کے لئے ماہ رمضان میں خصوصی پیکجز کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں خصوصی کمی کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کے لئے سحر و افطار میں آسانی ہو‘ لیکن افسوس کہ مسلمان ہونے کے باوجود یہاں روش اس کے بالکل برعکس ہے۔ رمضان المبارک میں پھلوں، سبزیوں اور گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ہر سال کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے کا آغاز رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے ہوتا ہے اور چاند رات تک جاری رہتا ہے۔ دکان دار لوٹتے اور عوام لٹتے رہتے ہیں اور کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔ حکومت ہر سال گراں فروشوں کے خلاف کارروائی اور لوگوں کو ریلیف دینے کے اعلانات کرتی ہے لیکن عملی طور پر کچھ ہوتا نظر نہیں آتا اور لوگ مہنگے داموں پھل اور سبزیاں خرید کر حکومت کو کوس کوس کر چپ ہو جاتے ہیں۔


ہماری اجتماعی منافقت کا یہ عالم ہے کہ سب کچھ ٹھیک دیکھنا چاہتے ہیں‘ عدل بھی انصاف بھی‘ امن بھی‘ اصول بھی‘ میرٹ بھی‘ دستور بھی‘ اصلاح بھی اور شعور بھی لیکن ہمارا انفرادی طرز عمل یہ ہے کہ جس کا جہاں داؤ لگتا ہے وہ ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتا۔ یہ طرزِ عمل ایک دیمک کی مانند ہوتا ہے جو لکڑی کو اندر ہی اندرکھا جاتی ہے۔ اس طرزِ عمل کے بعد کسی دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ معاشرے یا ملک کو تباہ کرے‘ ایک نہ ایک روز معاشرہ خود اپنے بوجھ سے گر جاتا ہے۔ ہمیں جھوٹ بولنے سے منع کیا گیا‘ لیکن ہم جھوٹ بولتے ہیں۔ ناجائز منافع خوری سے منع کیا گیا‘ ہم کرتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی سے منع کیا گیا‘ لیکن راتوں رات امیر ہونے کے لئے ہم ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور پھر مارکیٹ میں اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کر کے منہ مانگے دام وصول کئے جاتے ہیں۔ ہمیں خبردار کیا گیا کہ ”من غشا فلیس منا“ کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘ اس کے باوجود ہم ملاوٹ سے باز نہیں آتے‘ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آج کل ملاوٹ اور دھوکہ دہی ایک آرٹ بن چکا ہے۔ لوگ کس کس طرح سے دھوکہ دیتے اور لوٹتے ہیں‘ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ چلیں ملاوٹ کسی مناسب چیز کی کی جائے تو بھی بندہ برداشت کر لے‘ لیکن یہاں تو ملاوٹ کے لئے مضرِ صحت اشیا کے استعمال کو بھی غلط نہیں سمجھا جاتا۔ ملاوٹ کے لئے استعمال ہونے والی یہ اشیا لوگوں کو کن کن بیماریوں میں مبتلا کرتی ہوں گی‘ اس کا اندازہ زیادہ مشکل نہیں ہے‘ حتیٰ کہ رمضان کے مہینے میں بھی ملاوٹ والی اور دو نمبر اشیا کی فروخت میں کمی نہیں آتی۔ یہاں تو بندہ بیمار ہو جائے تو خالص اور ایک نمبر ادویات ہی نہیں ملتیں۔ مریض دو نمبر ادویات استعمال کرتا اور مزید بیمار ہو جاتا ہے۔


ہمارا دینِ برحق ہمیں جو کچھ سکھاتا ہے اس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے ذہن پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ عبادت کرنے کے بعد اپنی دکان پر جا کر کوئی کم تولتا ہے‘ اچھی چیز کے پیسے لے کر ناقص چیز دیتا ہے‘ اچھے فروٹ کے پیسے لے کر گلے سڑے پھل شاپر میں ڈال دیتا ہے۔ پانی سے بھرا گوشت فروخت کرتا ہے یا کوئی چیز فروخت کر کے ڈبل ٹرپل کماتا ہے تو اس کی عبادت قبول نہیں ہو گی۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں ایک پرکھ ایک امتحان کے لئے بھیجا گیا ہے جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔ حقوق اللہ پورے کرنے بے حد ضروری ہیں‘ اس میں کوئی شبہ نہیں‘ لیکن آپ یہ بھی دیکھئے کہ ہمارے مذہب میں حقوق العباد پر کتنا زوردیا گیا ہے۔ تو آئیے اس رمضان المبارک کو اپنے لئے راہ نجات بنا لیں۔ یہ طے کر لیں کہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا جس سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچے‘ چاہے وہ پیسوں کا ہو‘ جسمانی ہو یا روحانی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ’میں‘ سے نکلیں اور ’ہم‘ کے بارے میں سوچیں۔ صرف اپنی ذات کا نہ سوچیں‘ دوسروں کی بھلائی کو بھی پیشِ نظر رکھیں۔ پھر دیکھیں یہ معاشرہ فلاحی معاشرہ بنتا ہے یا نہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی دراصل ہے نہیں‘ لیکن ملک میں لاقانونیت کی وجہ سے یہ پیدا ہوتی اور پھلتی پھولتی رہتی ہے۔ قانون سے ڈریں لیکن اس سے زیادہ اللہ سے ڈریں‘ جو ہر وقت‘ ہر جگہ موجود ہوتا ہے اور ہم کیا کرتے ہیں‘ کیا بولتے ہیں‘ حتیٰ کہ کیا سوچتے ہیں‘ سب دیکھ اور جان رہا ہوتا ہے۔ آئیے اس رمضان المبارک سے اللہ کے اچھے بندے بن جائیں۔  

مزید :

رائے -کالم -