دھمکی آمیز خط کا معاملہ قومی سلامتی کمیٹی میں اٹھانا چاہئے
وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کا اثر زائل کرنے اور عوام میں اپنی مقبولیت کا مظاہرہ کرنے کے لئے 27 مارچ کو اسلام آباد پریڈ گراؤنڈ میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کیا،جس میں انہوں نے جہاں اپوزیشن کی ہارس ٹریڈنگ، کرپشن، اپنے دور حکومت میں فلاح و بہبود کے اقدامات کا ذکر کیا وہاں یہ انکشاف بھی کیا کہ ’ہمیں خط لکھ کر دھمکی دی گئی‘ ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس کا ثبوت یہ دھمکی آمیز خط ہے۔باہر سے ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی کو متاثر کیا جا رہا ہے۔ اس سازش کا ہمیں مہینوں سے اندازہ تھا۔ا نہوں نے اپنے ارکان اسمبلی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو لالچ دیا گیا پیسوں کی پیشکش کی گئی، ضمیر خریدنے کی کوشش کی گئی، لیکن آپ بکے نہیں۔ ہمارے ملک کو پرانے لیڈرز کے کرتوتوں کی وجہ سے دھمکیاں ملتی رہیں۔ ملک کے اندر موجود لوگوں کی مدد سے حکومتیں تبدیل کی جاتی رہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ملک کو آزاد خارجہ پالیسی دینے کوشش کی تو ان کے خلاف تحریک چلائی اور آج جیسے حالات بنا دیئے گئے۔ امریکی سفیر نے بھٹو مرحوم کو دھمکی دی تھی۔ وزیراعظم نے یہ بھی پیش کش کی کہ جو بھی شک کر رہا ہے، اسے آف دی ریکارڈ خط دکھا سکتا ہوں۔ بیرونی سازش کی بہت سی باتیں مناسب وقت پر جلد سامنے لائی جائیں گی، لیکن اس کو پبلک کرنا ملکی مفاد کے خلاف ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو ملنے والا دھمکی آمیز خط شیئر کر کے ہم سیاست بھی کر سکتے ہیں، لیکن ایسا نہیں کر رہے۔ خط شیئر کرنے سے سیاسی طور پر فائدہ ہو گا لیکن خارجہ پالیسی متاثر ہو گی۔ خط جس کی جانب سے بھیجا گیا ان کا نام سامنے نہیں لانا چاہتے۔آئین ہمیں ملکی مفاد متاثر کرنے والی چیزیں بتانے سے روکتا ہے۔ خط کے مندرجات چند اعلیٰ سول اور ملٹری لیڈرشپ کے ساتھ شیئر کر لئے ہیں خط کے معاملے کو قومی سلامتی کمیٹی میں بھی لے جایا جا سکتا ہے، لیکن خط کے مندرجات ایسے ہیں جوزیادہ لوگوں سے شیئر نہیں کیے جا سکتے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمرنے اس معاملے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ مراسلہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے آیا جس میں ”دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہتے ہیں تو خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں“۔انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس معاملے کے ایک کردار سابق وزیراعظم اور اپوزیشن جماعتیں ہیں۔ کچھ لوگوں کو اعتراض ہے کہ وزیراعظم نے ”دھمکی آمیز خط“ انہیں نہیں دکھایا تو وزیراعظم یہ خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دکھانے کو تیار ہیں‘۔
اصولی طور پر یہ خط فوری طورپر قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کیا جانا چاہئے جہاں اس کے مندرجات پر اور حالات حاضرہ پر غورو فکر ہوتا اور اگر اس کی سچائی واضح ہو جاتی تو پھر یہ خط لکھنے والی شخصیت یا ریاست سے پرزوراحتجاج کیا جاتا۔ اگر اس کے پیچھے اپوزیشن کی سیاست ہے تو بھی اس بارے عوام کو بتایا جائے تاکہ عوام اپنے سابقہ حکمرانوں کے اصل چہروں کو پہچان سکیں۔
بیرونی عناصر ایک ملک میں منتخب حکومت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے بیرون ملک سے پیسہ بھیجا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے تو یہ معلوم کیا جائے کہ یہ پیسہ کس چینل سے آیا ہے۔ کس کے اکاؤنٹ میں پیسہ آیا۔ کیا بینکوں کے ذریعے آیا یا کوئی دوسرا راستہ اختیار کیا گیا۔ کتنا پیسہ آیا۔ کس کو ملا۔ یہاں پر کس طرح تقسیم ہوا۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ذہن میں اٹھ رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ متعلقہ اداروں کے ذمے لگائیں کہ اس کی جانچ پڑتال کریں۔ دوسری سب سے اہم بات یہ کہ ہم پر پہلے ہی منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی شرائط میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ ملک میں آنے اور جانے والے پیسے کا حساب رکھا جائے۔ اگر ایسے ہی حکومتیں گرانے کے لئے وطن عزیز میں پیسہ آنے لگا تو ایف اے ٹی ایف کو بھی اعتراض ہوگا اور اس کے رکن ممالک جو آج ہمارے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں اور ہمیں گرے لسٹ سے نکلنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں وہ بھی ہم سے بد دل ہو سکتے ہیں۔
حکومت کو یہ معاملہ عالمی سطح پر بھی اٹھانا چاہئے، کیونکہ یہ ہمارے وطن کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ کوئی بھی ملک، ریاست، فرد کیسے ایک منتخب حکومت کو گرا سکتی ہے۔ اس ریاست، ملک یا شخصیت کے خلاف عالمی فورمز پر بات کرنی چاہیے۔ اقوام متحدہ میں اس مسئلہ کو اٹھانا چاہئے۔ پاکستان میں مذکورہ ملک کے سفیر کو طلب کر کے اس سے وضاحت لینی چاہئے۔ یہ صرف ایک پارٹی یا حکومت کے خلاف دھمکی نہیں بلکہ یہ ریاست کا معاملہ ہے۔ اسے ریاستی اداروں کے ذریعے ہی حل کیا جانا چاہئے۔
حکومت پارلیمان کا ان کیمرہ اجلاس بلا کرارکان اسمبلی کے سامنے یہ معاملہ رکھیں کہ حکومت سابق وزیراعظم اور اپوزیشن جماعتوں پر اس بارے میں سنگین الزام عائد کر رہی ہے تو کم از کم ان سے پوچھا تو جائے کہ یہ کیسی سیاست ہے کہ وطن کی سلامتی اور استحکام کو ضرب پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اگر یہ خط واقعی دھمکی آمیز اور سفارتی چیلنج ہے تو اسے قومی سلامتی کے معاملے کی بجائے سیاسی ہتھیار کی طرح کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟ اور اس خط کی بنیاد پر منحرف اراکین سے ’راہ راست‘ پر آنے کی تاکید کے علاوہ کوئی کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی؟وکی لیکس میں بہت سی چیزیں ظاہر ہوئیں جس کے بعد صرف امریکہ نہیں، سب کو احساس ہوا کہ بہت محتاط رہیں اور کوئی کاغذی ثبوت نہیں چھوڑا جائے کیوں کہ ڈیٹا کی سیکیورٹی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سیکیورٹی کا تعلق فوج اور قانون نافذ کرنے الے اداروں سے ہے۔ اس معاملے کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں لے جانا چاہیے۔ بہتر تو یہ تھا کہ پہلے اپنے طور پر جانچ کی جاتی اور خفیہ طریقے سے خفیہ اداروں سے پوچھا جاتاہے، لیکن اس کو پبلک کرنا بہتر نہیں تھا۔