اقلیدس رات کو عورت کا بھیس بدل کر سقراط کی مجلس میں شا مل ہوتا اور روزانہ پچیس تیس کلو میٹر پیدل سفر کرتا

مصنف:لطیف جاوید
قسط:31
دیو جانس سے سرِ عام ایسے فعل سر زد ہوتے تھے جو معاشرے میں شرمناک جانے جاتے تھے۔ وہ ایسا لباس پہنتا تھا جو اخلاقی قوانین کے مطابق فحش سمجھا جا تا تھا۔لیکن وہ اِن ضابطوں کو سوسائٹی کا ناجائز دباؤ کہتا تھااوروہ اِن ضابطوں سے آزادی حاصل کرنا چاہتا تھا۔یہ شخص ساری زندگی کسی بال تراش کی خدمات سے آزاد رہا۔بالوں سے اِس کا چہرہ اور منہ نظر نہیں آتے تھے۔
۰دیو جانس جب انٹی تینس کے پاس شاگردی حاصل کرنے کے لئے آیا تو انٹی تینس نے اسے سگِ دنیا جانا اور سختی سے انکا رکر دیا۔دیو جانسن لجاجت سے اِلتجا کرتا رہا اور انٹی تینس درشتگی سے اِنکار کرتا رہا۔ دونوں کی کیفیات میں اضافہ ہوتا گیا۔آخر انٹی تینس کو شدید غصہ آیااور وہ ڈنڈا لیکر دیو جانس کو پیٹنے لگا۔اِس پر دیو جانس نے کہا۔
” مار اے شفیق استاد ! اگر تیری یہی خوشی ہے مار۔لیکن یاد رکھ کہ دنیا کا کوئی اعصاءمیرے ثبات ِ عزم کو روک نہیں کر سکتا۔“
اِس پر انٹی تینس کا دل پسیج گیا اور اسے شاگردبنا لیا۔
۰ ایک دفعہ دیو جانس پر کتے نے حملہ کر دیا تو دیو جانس نے ایک پتھر اٹھا کر کتے کو دے مارا۔وہ تمام عمر اپنے اِس فعل پر پشیمان ہوتا رہا کہ اس نے کتے کو یہ تکلیف کیوں پہنچائی۔حالانکہ خود حفاظتی کے عالمی اصول کے مطابق یہ فعل غلط نہ تھا۔دیو جانس اِس کی توجیہہ یہ کرتا تھا کہ بچپنے میں اِنسان میں کچھ ایسی معاشرتی عادات پروان چڑھ جاتی ہیں جن سے چھٹکارا پانا مشکل ہوتا ہے۔ اِسی طرح کی ایک بات راجر بیکن نے بھی کی ہے۔وہ کہتا ہے کہ انجیل کے مطالعہ سے دل ابکائی لیتا ہے لیکن وہ پھر بھی اِس پر ایمان لاتا ہے کیونکہ یہ بچپن میں اس کے خمیر میں شامل کر دی گئی ہے۔
۰ا قلیدس بھی سقراط کے شاگردوں میں سے تھا یہ ریاست مجارا کا رہنے والاتھا۔یاد رہے کہ ان دنوں یونان چھوٹی چھوٹی ریا ستوں میں بٹا ہوا تھا۔سقراط ایتھنز میں رہتا تھا۔اِن دونوں ریاستوں میں سیاسی چپقلش چل رہی تھی۔ایتھنز کے حکمرانوں کی طرف سے یہ حکم صادر تھا کہ مجاراکا کوئی فرد ایتھنز میں نظر آئے تو اسے قتل کر دیا جائے۔اقلیدس سقراط کی مجالس میں شامل ہونا چاہتا تھا۔اس نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ وہ رات کو عورت کا بھیس بدل کر سقراط کی مجلس میں شا مل ہوتا اور صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے مجارا واپس آجاتا۔اِس طرح اسے لمبا عرصہ تک رات کوعورت کے بھیس میں پچیس تیس کلو میٹر فاصلہ روزانہ طے کرنا پڑا۔
( نوٹ اِس مضمون کی تیاری میں مولانا عبدالماجد دریا بادی کے مضمون ” فلسفہ کی تعلیم “ شائع شدہ ”فلسفہ کیا ہے“ مرّتبہ ڈاکٹر وحید عشرت سے استفادہ کیا گیا۔)
بجز دیوانگی واں اور چارہ ہی کہوکیا ہے؟
جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی
فلسفہ اور مکاتب ِ فکر
اِس باب میں ہم معروف مکاتبِ فکر کا مطالعہ کریں گے ،جنہوں نے اِنسانی معاشرہ اور تہذیب و تمدن کو متاثر کیا اور انسان کو نئے نئے افکار سے روشناس کرایا۔
1 ۔ معروف مغربی مکاتب ِ فکر
مادیت پسندی (Materialism)
اِس مکتبِ فکر کا دعویٰ ہے کہ اِس کائنات کی اصل حقیقت مادہ ہے۔یہ مادہ خود بخود وجود میں آیا ہے، اِسے کسی خالق نے تخلیق نہیں کیا ،اِس لئے اِس مکتب کو دہریت پسند بھی کہا جاتا ہے۔یہ اِنسان کا قدیم ترین نظریہ ہے۔
ایٹم(Atom) کی دریافت کے بعداِس نظریہ نے ایک نئی کروٹ لی۔ایک جدید اور سائنسی مادیت پسندی۔۔۔۔۔( Scientific Materialism ) کا نظریہ سامنے آیا کہ مادہ بھی دراصل توانائی کی ہی ایک شکل ہے۔ گویاذہن کو بھی مادے کی ہی ترقی یافتہ شکل مان لیا گیا۔یوں توانائی کو کائنات کی اصل حقیقت سمجھ لیا گیا۔اِس کے بعد مادہ ایک ٹھوس شے نہیں رہا۔ ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔