کراچی میں فلم سازی کے سلسلے 60ءکی دہائی کے اواخر تک چلے،پھر فنکار لاہور کوچ کر گئے ،پہلی پشتوفلم بھی کراچی میں ہی مکمل ہوئی

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:62
اس وقت ایسٹرن اسٹوڈیوز کے دونوں فلور مکمل طور پر بک ہوتے تھے ان کے ساتھ بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے کمروں میں فلمی پروڈیوسر اور ہدایت کار اپنے اپنے دفاتر بنائے بیٹھے رہتے تھے ۔سامنے میدان میں بھی ہر وقت کسی نہ کسی فلم کا آؤٹ ڈور سیٹ لگا رہتا تھا اور ”سٹارٹ کیمرہ ، ساؤنڈ ، او کے اورکٹ “ کی آوازیں ہر طرف گونجتی رہتی تھیں ۔
اندر شوٹنگ فلور پر بھی فلم بندی کے دوران بڑی ہا ہا کار مچی رہتی تھی۔اسٹوڈیو کے باہرمرکزی دروازے پر نوجوانوں کا ایک بڑا ہجوم کھڑا رہتا تھا۔ ان میں سے اکثر تو اپنے پسندیدہ فلمی ستاروں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں انتظار کیا کرتے تھے جبکہ کچھ بال سنوارے ، تنگ پتلونوں کے ساتھ رنگ برنگے رومال گلے میں لٹکائے ہیرو کے انداز میں اس آس پر ادھر اُدھر گھومتے رہتے کہ شاید کسی قدر شناس ڈائریکٹر کی نظر کرم ان پر بھی پڑجائے اوروہ بھی چھوٹے موٹے انداز میں کوئی تخلیقی کام کرکے اپنی فنکارانہ زندگی کا آغاز کرسکیں۔انہوں نے کسی سے سن رکھا ہوگا کہ زیادہ تر بڑے فنکاروں نے اسی طرح کی گمنامی سے نکل کر اپنی کامیاب پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا تھا۔
کراچی میں فلم سازی کے یہ سلسلے سن 60ءکی دہائی کے اواخر تک چلے ۔چونکہ زیادہ تر فنکار اس وقت تک لاہور کوچ کر گئے تھے، لہٰذا یہاں کام تقریباً ٹھپ ہی ہو کر رہ گیا تھا ۔ اب اس اسٹوڈیو میں صرف علاقائی فلمیں ہی بنتی تھیں جن میں سندھی ، بلوچی اور ایک آدھ میمنی فلم بھی شامل تھی ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ پہلی پشتوفلم بھی کراچی میں ہی مکمل ہوئی تھی۔اس کا نام ”یوسف خان شیر بانو“ تھا اور اس کا ہیرو بدر منیر اسی اسٹوڈیو میں ایک لائٹ مین تھا جس کو وحید مراد کی سفارش پر یہ کام ملا تھا ۔ اس کے بعد تو اس نے مڑ کر نہیں دیکھا اور کئی دہائیوں تک پشتو فلموں پر حکمرانی کرتا رہا ۔ کچھ عرصے بعد ہی پشتو فلموں کا مرکز بھی لاہور ہی ٹھہرا حالانکہ کراچی میں اس وقت تک پشتونوں کی ایک بہت بڑی تعداد نقل مکانی کرکے آباد ہو چکی تھی ۔سو پشتو فلموں کے اداکار بھی لاہور ہی سدھارے۔
پھر آہستہ آہستہ کام نہ ہونے کی وجہ سے یہ محفلیں خواب وخیال ہو گئیں ۔ کراچی کا یہ اکلوتااسٹوڈیو ویران ہو گیا اور اپنے ساتھ ہی اس شہر میں فلم سازی کا درخشاں باب بھی تقریباً بند ہی کر گیا ۔
فلموں نے کراچی کے عوامی رویوں پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ۔ پرانے وقتوں کے لوگ تو پہلے ہی اس سے واقف تھے اور فلم کو ابھی تک” بائسکوپ“ ہی کہتے تھے جبکہ شوقین مزاج جو ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے اور فلم کی رنگینیوں کونہیں بھولے تھے وہ اسے بمبئی اسٹائل میں”پچر“کہا کرتے تھے ۔
بات اتنی مختصر بھی نہیں جو یہاں ہی گول مول کرکے ختم کردی جائے ، پورا ایک باب چاہیے اس کی وضاحت کرنے کو ۔چلیں ابھی کچھ دیر اور اس موضوع کو چھیڑے رکھتے ہیں اور اندر سے کچھ اور دلچسپ چیزیں تلاش کرتے ہیں ۔ ( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )