میں3 چیزوں سے ڈرتا تھا، جیل نوکری اور فوج۔۔۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا

میں3 چیزوں سے ڈرتا تھا، جیل نوکری اور فوج۔۔۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا
میں3 چیزوں سے ڈرتا تھا، جیل نوکری اور فوج۔۔۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : میلکم ایکس( آپ بیتی)
ترجمہ :عمران الحق چوہان 
قسط :39
 ایک روز جب میں نیویارک پہنچا تو میرا بھائی ریگی نالڈ میرا منتظر تھا۔ ایک روز پہلے اس کا مرچنٹ شپ نیو جرسی کی بندرگاہ پر پہنچا تھا۔ وہ مجھے ڈھونڈتا ہوا سمالز پہنچا وہاں سے ایک بار ٹینڈر نے اسے سیمی کے پاس بھیج دیا۔ جس نے اسے مجھ سے ملوا دیا۔ اسے دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ یہ وہی چھوٹا سا بچہ ہے جو ہر وقت میرے پیچھے پیچھے پھرتا رہتا تھا۔ اب وہ تقریباً 6 فٹ لمبا تھا اس کا رنگ مجھ سے زیادہ کالا تھا آنکھیں سبزی مائل تھی اور بالوں میں ایک سفید لٹ تھی، میں نے ریگی نالڈ کو دوستوں سے ملوایا مجھے دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ وہ اتنا سمجھدار ہوگیا ہے جتنا اس عمر میں میں نہیں تھا۔ میرے پاس اپنی رہائش تو نہ تھی لیکن کچھ پیسے تھے کچھ رقم ریگی نالڈ کے پاس تھی۔ چنانچہ ہم سینٹ نیکولس ہوٹل چلے گئے۔
ریگی نالڈ اور میں رات بھر لانسنگ میں گزرے سالوں کی اور اپنے گھر والوں کی باتیں کرتے رہے میں نے اسے ماں اور والد کے متعلق بتایا جو اسے کچھ زیادہ یاد نہیں تھا ریگی نالڈ نے مجھے باقی بہن بھائیوں کے متعلق بتایا، ولفرڈ اب تک ولبر فورس یونیورسٹی میں ٹریڈ انسٹرکٹر تھا۔ ہلڈا ابھی لانسنگ میں ہی تھی اور شادی کے متعلق سوچ رہی تھی اور فلبرٹ کے بھی کچھ ایسے ہی ارادے تھے۔ ہم دونوں سے چھوٹے یوون، ویزی اور روبرٹ ابھی سکول میں ہی تھے میں اور ریگی نالڈ فلبرٹ کو یاد کرکے بہت ہنسے جو بہت زیادہ مذہبی ہو چکا تھا۔
 ریگی نالڈ کا جہاز غالباًانجن کی مرمت کے لیے ہفتہ تک رکنا تھا اس نے میری جدوجہد کی بہت تعریف کی ۔میں نے ایک دوست سے اسے ایک عمدہ اوور کوٹ اور سوٹ لے کر دیا اور اسے بتایا کہ میں نے زندگی سے یہی سیکھا ہے کہ کچھ حاصل کرنے کے لیے آپ کو یہی ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ گویا آپ کے پاس پہلے ہی سے کچھ ہے۔
ریگی نالڈ کی رخصتی سے پہلے میں نے اسے ترغیب دی کہ وہ مرچنٹ میرین چھوڑ کر ہارلم میں ہی کاروبار شروع کرے۔ شاید میرا خیال تھا کہ چھوٹے بھائی کا ساتھ میرے لیے بہتر ہوگا اس طرح میرے دو قابل اعتماد ساتھی ہو جائیں گے۔
 ریگی نالڈ نے تحمل سے میری بات سنی اور رخصت ہوتے وقت صرف اتنا کہا ”میں اس کے متعلق سوچوں گا۔“
ان دنوں میں دنیا بھر میں3 چیزوں سے ڈرتا تھا۔ جیل نوکری اور فوج اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ یہ 1943ءکی بات ہے بوسٹن ڈرافٹ بورڈ نے ایلاءکے پتہ پر مجھے خط لکھا۔ پھر نیویارک ڈرافٹ بورڈ کے ذریعے مجھے سیمی کی معرفت دس دن کے اندر(فوج میں جبری بھرتی کے لیے) انڈکشن سنٹر رپورٹ کرنے کا حکم ملا۔ ابھی وقت تھا لہٰذا میں نے ایک منصوبہ پر عمل کرنا شروع کیا۔ ہارلم میں آرمی انٹیلی جنس کے سیاہ فام مخبر مرکزی علاقہ کے گوروں کے لیے سن گن لیتے پھرتے تھے۔ میں نے جا بجاآواز بلند میں کہنا شروع کر دیا کہ”میں تو فوج میں شامل ہونے کا دیوانہ ہوں۔ جاپانی فوج میں۔“ جب مجھے یقین ہوگیا کہ میرے خیالات مخبروں تک پہنچ چکے ہیں تو میں نے نشی¿وں اور دیوانوں والی حرکات شروع کر دیں۔ جوان دنوں ہارلم کے منشیات فروشوں کی عمومی حالت تھی اور آگے چل کر میری بھی ہونی تھی اور نشے کی بڑھتی ہوئی مقدار اور منشیات فروشی کی مشکل زندگی کا یہ منطقی نتیجہ تھی۔ میں سرکاری”مبارکباد“ والا خط اونچی آواز میں پڑھتا تاکہ مخبر میرے صحیح نام سے اچھی طرح واقف ہو جائیں۔(اور یہ غالباً واحد موقع تھا جب ہارلم کے لوگوں نے میرا صحیح نام سنا)۔
 جس روز مجھے حاضری کے لیے جانا تھا میں نے اداکاروں والے کپڑے پہنے۔ اپنے وائلڈ زوٹ سوٹ کے ساتھ پہلے ”نوب ٹو“ جوتے پہنے اور اپنے بال سرخ جھاڑی کی طرح کھڑے کر لیے میں ناچتا، مٹکتا استقبالیہ پر پہنچ اور گا گا کر انہیں اپنے متعلق بتایا۔ اگرچہ میرے متعلق پہلے ہی اطلاع مل چکی تھی مگر پھر بھی انہوں نے مجھے انتظار گاہ میں بھیج دیا جہاں چالیس پچاس جبری بھرتی کیے جانے والے آدمی بیٹھے تھے۔ کمرے میں بے حد خاموشی تھی جبکہ میری زبان ایک منٹ فی میل کے حساب سے چل رہی تھی۔ میں Slang زبان میں شور مچا رہا تھا کہ ”میں ہر محاذ پر لڑوں گا، اور ریٹائرمنٹ سے پہلے مجھے جنرل بنایا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔“
زیادہ تر لوگ سفید فام تھے جو ذرا کم عمر تھے وہ مجھ سے گھبرانے لگے۔ کچھ دوسرے مجھے حقارت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے جب کہ چند لوگ مجھے دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ کمرے میں دس بارہ سیاہ فام بھی موجود تھے لیکن ان کے چہروں پر کچھ ایسی سختی تھی گویا وہ ابھی کسی کا خون کر دیں گے یہ بھی امکان تھا کہ مجھ ہی سے نہ جھگڑ پڑیں۔( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -