وزیراعظم اور وزیراعظم ہاﺅس؟
میڈیا آزاد ہے،کچھ زیادہ ہی آزاد ہے اور اس آزادی کے عوض دوسروں کی راہ میں کانٹے بچھانا بھی فرض بن چکا ہے۔11مئی کے انتخابی نتائج کے بعد میاں محمد نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے جارہے ہیں، وہ اور ان کی جماعت مسلم لیگ(ن) خبروں کی زد میں ہے۔بلاشبہ میاں محمد نوازشریف اور ان کے دست راست چھوٹے بھائی نے یہ کہا کہ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی اور سادگی اختیار کی جائے گی ۔اب اس نیت کی روشنی میں میڈیا آزاد ہے کہ جو چاہے معنی اخذ کرے، اب خبر ہے کہ میاں محمد نوازشریف وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد موجودہ وزیراعظم ہاﺅس میں رہائش نہیں رکھیں گے اور پروٹوکول میں بھی کمی کردیں گے، اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا گیا کہ وزیراعظم ہاﺅس کا کوئی دوسرا مصرف سوچا جائے گا، البتہ ایک خبرنگار نے ذرا عقل مندی کا مظاہرہ کیا اور یہ لکھ کر خبر کو سہارا دیا کہ سیکیورٹی ایجنسیاں اس کی مخالفت کریں گی۔
اب یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ خبر خفت کا سامان پیدا کرنے کے لئے چلائی گئی ہے اور اگر میاں صاحب کی شہرت میں اضافے کے لئے خود دوستوں کی کارروائی ہے تو پھر ان کے ہوتے ہوئے کسی ........کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
اس سے پہلے کہ مزید کچھ عرض کیا جائے تو یہ گزارش ضروری ہے کہ اسلام آباد وفاق کا دارالحکومت ہے اور یہ نیا بنا تھا اس لئے اس کا نقشہ بھی اسی ضرورت کے تحت بنایا گیا، اب ذرا وزیراعظم ہاﺅس،ایوان صدر، سیکرٹریٹ، پارلیمنٹ ہاﺅس، وزیراعظم سیکرٹریٹ کے محل وقوع پر نظر ڈال لیں تو بہت کچھ واضح ہوجاتا ہے۔صاف ظاہر ہے کہ اسلام آباد بنانے والوں کے ذہن میں جو تھا، اسے آرکیٹیکٹ نے خوب پیش نظر رکھا اور یہ سب سرکاری عمارتیں ایسے انداز سے اور محل و وقوع کی مناسبت سے تعمیر کیں کہ ان سب کا ایک دوسرے کے ساتھ ایک خاص ربط ہے، اگر صدر یا وزیراعظم خاص پروٹوکول کو ضروری کی حد تک بھی لے جائیں تو یہ علاقہ ان کی آمدورفت میں رکاوٹ کی بجائے معاونت کرے گا، وزیراعظم ہاﺅس، یاایوان صدر سے ایک سے دوسری جگہ آنے جانے اور پارلیمنٹ سے وزیراعظم سیکرٹریٹ تک رسائی عمومی رہ جاتی ہے۔اب یہ الگ بات ہے کہ ملک کے خصوصی حالات کی روشنی میں سیکیورٹی کے نام پر جو کچھ اس علاقے میں ہوتا ہے، کبھی کبھی مضحکہ خیز لگتا ہے۔اس کا نظارہ مخدوم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے عدالت عظمیٰ میں پیش ہونے اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی پیشیوں کے مواقع پر حفاظتی انتظامات کے نام پر ہونے والے شو سے بخوبی ہوا،یوں بھی اس پورے علاقے کو ریڈزون قرار دیا گیا ہوا ہے۔
بادی النظر میں اس فیصلے کے پس منظر میں کار فرما جذبے کو اجاگر کرنا لگتا ہے ،لیکن یہ نظر انداز کردیا گیا کہ جو علاقہ سیکیورٹی کے نقطہ ءنظر سے پہلے ہی سے محفوظ کرلیا گیا ہے، اسے چھوڑ کر دوسری جگہ جانے کے بعد، کیا وزیراعظم کے لئے سیکیورٹی ختم ہو جائے گی، بلکہ اس کا منطقی نتیجہ تو یہ ہوگا کہ سیکیورٹی بڑھ جائے گی۔اس لئے یہ بات دل کو نہیں لگتی اور یقینا سیکیورٹی کے ذمہ دار وزیراعظم کو آگاہ بھی کردیں گے۔اب بات آتی ہے غیر ضروری پروٹوکول کی تو اس سلسلے میں وزیراعظم کی خواہش کا احترام تو کیا جائے گا، لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں رہے گا، اگر کسی کو اعتبار نہیں تو میاں صاحبان کی ہدایت کے باوجود رائے ونڈ اورماڈل ٹاﺅن آفس کی سیکیورٹی کا نظام ملاحظہ فرما لیں تو یہ غلط فہمی دور ہو جائے گی۔اس سلسلے میں ہماری بات سیکیورٹی نظام کے ایک اہم رکن سے ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ حضرات جو چاہے کہتے رہیں، یہ تو سیاستدان ہیں، ان کی سوچ اپنی ہوتی ہے لیکن کوئی افسر ایسا رسک لینے کو تیار نہیں ہوگا کہ سیکیورٹی کم کرکے کسی خطرے کو آواز دے، وہ تو حالات کے مطابق سیکیورٹی مزید بہتر بنانے پر توجہ دے گا۔
اس سلسلے میں ایک مختصر سی مثال عرض ہے کہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی جب وزیراعلیٰ ہوئے تو انہوں نے گلبرگ میں ذاتی رہائش گاہ پر ہی رہنے کافیصلہ کیا۔اس رہائش گا ہ کو جھٹ پٹ وزیراعلیٰ ہاﺅس کیمپ آفس قرار دے دیا گیا(وزیراعلیٰ کی سرکاری رہائش کلب روڈ جی او آر میں ہے) اب یہاں سیکیورٹی کے جو انتظام ہوئے تو حکام کی ہدایت پر پولیس نے ناکے لگا کر اردگرد کی تین سڑکیں بند کردیں، تین سڑکوں کے بند ہونے سے اردگرد کے ہمسایوں اور گزرنے والوں کو جو پریشانی لاحق ہوئی،اس کا ذکر بھی ہونے لگا اور جن حضرات کی رسائی تھی،وہ فون کرکے نجم سیٹھی سے شکائت کرنے لگے۔چند روز کے بعد ہی انہوں نے فیصلہ کرلیا اور کلب روڈ منتقل ہوگئے اور 7کلب کے سیکرٹریٹ ہی میں بیٹھنے لگے۔اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کی ذاتی رہائش گاہ والے نظام میں ایسی تبدیلیاں کردی جائیں کہ لوگوں کو راستہ مل جاتا، لیکن ایسا نہ ہوا،ایک روز نگران وزیراعلیٰ نے میڈیا والوں کو ظہرانے پر بلایا تو ہمیں بھی مدعو کرلیا گیا۔ہم نے رسمی ملاقات کے بعد واپس آتے ہوئے موقع پا کر محترم نجم سیٹھی کے فیصلے کی تعریف کی اور بتایا کہ لوگ تو ابھی تک پریشان ہیں ، اس پر نگران وزیراعلیٰ نے کہا:”کیا کریں،کئی بار کہا ہے، یہ لوگ سنتے ہی نہیں ہیں“....بہرحال اگلے دو روز کے بعد سیکیورٹی کا نظام تو رہا، البتہ لوگوں کی آمدورفت والی پابندی ختم کرکے ان کو سہولت دے دی گئی۔
عرض کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے نزدیک تو اس خبر کا مقصد نیک سا ہے، لیکن اس کے مطابق عمل نہ ہو سکا تو الٹا اثر ہوگا۔بہتر یہ ہے کہ ابھی سے وضاحت کردی جائے۔ وزیراعظم کو وزیراعظم ہاﺅس میں رہنا اور سرکاری فرائض انجام دینا چاہئیں۔یوں بھی تو جب غیر ملکی مہمانوں کی آمد ہوگی تو یہی وزیراعظم ہاﺅس کام آئے گا۔اس لئے اسے چھوڑ کر نیا ٹھکانہ بنانا مناسب نہ ہوگا، البتہ یہ بات اچھی اور قابل قبول ہے کہ اخراجات میں کمی اور سادگی اختیار کی جائے گی۔اس کے علاوہ پروٹوکول کا جہاں تک مسئلہ ہے تو اس میں تبدیلی محترم وزیراعظم اپنی پسند سے کرسکتے ہیں، اس امر کا تو بہرحال ان کو خیال رکھنا ہوگا کہ جب وہ باہر نکلیں اور کسی دوسرے شہر جائیں، بلکہ یہ کہا جائے کہ خود اپنے گھر لاہور کا چکر لگائیں تو حفاظتی انتظامات کے نام پر عوام کو کم سے کم پریشان کیا جائے۔ان کے گزرنے کے لئے ٹریفک بند کرنا مقصود ہوتو وہ لمحوں کے لئے ہونا چاہیے کہ وزیراعظم کا قافلہ تو یوں بھی برق رفتار ہوتا ہے، ویسے لاہور ایئرپورٹ سے رائے ونڈ تک تو ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوسکتا ہے، اب یہ تو خود میاں محمد نوازشریف کی اپنی صوابدید ہے کہ وہ سادگی کے حوالے سے سیکیورٹی والوں سے کتنے متاثر ہوتے ہیں؟سیکیورٹی والے تو ”گرین بک“ کے مطابق چلیں گے۔ ٭