بجٹ 2017-18 ء کے مثبت اقدامات
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر رہے ہیں۔ یہ چیز مضبوط جمہوریت کی عکاسی کرتی ہے، جس پر پوری قوم فخر کر سکتی ہے۔ آج معتبر عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان 2030ء تک دنیاکی 20 بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل ہوجائے گا۔ مالی سال 2017۔2018ء کا 47 کھرب اور 52 ارب حجم کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایڈہاک الاؤنس کو ضم کرکے سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں 10 فی صد اضافے، محنت کش کی کم سے کم اجرت ایک ہزار روپے اضافے کے ساتھ 14ہزار سے بڑھا کر 15ہزار روپے کرنے کی نوید سنائی۔ 1 تا 5 گریڈ کے سرکاری ملازمین ہاؤس رینٹ الاؤنس کٹوتی سے مستثنیٰ ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی اعلان کیا کہ چھوٹی گاڑیاں، سمارٹ فون، موبائل کال، مرغی، بے بی ڈائپرز، ہائبریڈ کار، موٹر آئل سستا ہوگیا۔بقول وزیر خزانہ اس سال ہمارے جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 5.3 فی صد ہے، جو پچھلے سال میں ترقی کی بلند ترین شرح ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر مناسب سطح پر ہیں، جو چار ماہ کی برآمدات کے لئے کافی ہیں۔ گزشتہ 4 سال کے دوران ٹیکس وصولیوں میں 81 فی صد اضافہ ہوا ہے، جو اوسطاً 20 فیصد اضافہ ہے۔ پچھلے چار سال میں فی کس آمدن 1.334ڈالر سے بڑھ کر 1.629 ڈالر ہوئی ہے، یعنی 22 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔2008۔2013ء کے دوران افراط زر اوسطاً 12 فی صد سالانہ رہی، جبکہ رواں سال یہ شرح 4.3 فی صد متوقع ہے۔
حکومت نے معیشت کے استحکام کے لئے ڈسپلن پر سختی سے عمل کیا، جس کے نتیجے میں خسارہ مالی سال 2012۔2013ء میں 8.3 فی صد سے کم ہو کر رواں سال میں 4.2 فی صد رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی کمی کی گئی۔ حکومت 300 یونٹ ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے کم آمدن صارفین کے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سبسڈی کی صورت میں جاری رکھے گی۔ بلوچستان کے کسانوں کے لئے زرعی ٹیوب ویلوں کے بجلی کے استعمال پر وفاقی حکومت سبسڈی جاری رکھے گی،جبکہ پورے ملک میں زرعی ٹیوب ویل کے لئے 5.35 روپے فی یونٹ آف پیک ریٹ آئندہ مالی سال میں بھی جاری رہے گا، اس کا مقصد آئندہ کے لئے مالی سال کے بجٹ میں 118ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بے روزگار نوجوانوں کو سہولت دینے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم کی یوتھ لون سکیم کے تحت خریدی گئی گاڑیوں کو ود ہولڈنگ ٹیکس سے چھوٹ دی جائے۔ اس وقت وہ ٹیکس گزار، جن کی آمدنی پانچ لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہے، وہ سال گزشتہ کے ادا شدہ ٹیکس کے حساب سے چار اقساط میں ایڈوانس ٹیکس ادا کر سکتے ہیں۔ آمدنی کی یہ حد2010ء میں مقرر کی گئی تھی، لہٰذا تجویز کیا جاتا ہے کہ آمدنی کی اس حد کو پانچ لاکھ روپے سے بڑھا کر دس لاکھ روپے کر دیا جائے، تاکہ چھوٹے ٹیکس گزاروں کو سہولت مل سکے۔
ٹیکسوں کا ذکر کرتے ہوئے، اسحاق ڈار نے کہا کہ موجودہ قوانین کے مطابق ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرنے کی صورت میں پرویڑنل ایسسمنٹ آرڈر کے اجراء کے 45 دن کے اندر ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے، جب کہ انہیں اپیل کا حق بھی نہیں ہے۔ عوام کے مطالبے اور ان کی جائز شکایات کے ازالے کے لئے موجودہ طریقہ کار کے خاتمے کی تجویز ہے، گوشوارے داخل نہ کرنے کی صورت میں پرویڑنل ایسسمنٹ آرڈر کے بجائے قابل اپیل آرڈر جاری کیا جا سکے گا۔
2016۔2017ء میں ان کمپنیوں کو قابل ادائیگی ٹیکس پر دو سال تک 20 فی صد کی چھوٹ دی جاتی تھی۔ ایس ای سی پی نے اس اقدام کی تعریف کی اور سفارش کی کہ اسے کامیاب بنانے کے لئے مزید تین سال تک لاگو کیا جائے، لہٰذا تجویز ہے کہ جو کمپنیاں اسٹاک ایکسچینج میں شامل ہو جائیں، انہیں پہلے دو سال 20 فی صد، جبکہ آخری تین سال میں 10 فیصد کی چھوٹ دی جائے۔ ٹیکس کے حجم میں اضافے اور قوانین کی پاسداری کی ترغیب دینے کے لئے پچھلے سال گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لائف انشورنس پریمیم پر 1فی صد ایڈجسٹ ایبل ود ہولڈنگ ٹیکس متعارف کرایا گیا، جہاں یہ پریمیم دو لاکھ روپے یا اس سے زائد تھا۔ انشورنس سیکٹر کے مطالبے پر تجویز کیا جاتا ہے کہ پریمیم کی یہ حد بڑھا کر تین لاکھ روپے کردی جائے، تاہم گوشوارے داخل کرنے والوں کے لئے اس ٹیکس سے استثنیٰ جاری رہے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا اکہ غیر قانونی اور نان ڈیوٹی پیڈ سگریٹ کی پیداوار اور فروخت کے خطرناک حد تک پھیلاؤنے ایک طرف فروخت سے حاصل شدہ رقم کر کم کردیا ہے تو دوسری جانب صحت کے مسائل کو بھی جنم دیا ہے،کیونکہ ان ریگولیٹڈ پیداوارمیں معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا۔حکومت نے اس ضمن میں کئی اقدامات کئے ہیں، تاکہ غیر قانونی پیداوار اور تقسیم کو روکا جا سکے۔ تمباکو کی فروخت کو دستاویزی نظام کے دائرہ کار میں لانے اور تمام متعلقہ افراد اور ان کی پیداوار سے متعلق معلومات کے حصول کے لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ پاکستان ٹوبیکو بورڈ یا اس کے ٹھیکدار Tobacco cessکی وصولی کے وقت 5فی صد کی شرح سے ودہولڈنگ ٹیکس وصول کریں۔
پولٹری فارم سیکٹر نہ صرف ملک کے درمیانی آمدنی والے طبقے کو سستا چکن فراہم کررہا ہے، بلکہ یہ شعبہ ملکی صنعت میں اہم کردارادا کررہا ہے۔ اس شعبے کو مزید ریلیف دینے کے لئے تجویز ہے کہ چین کے grand parent اور parent stockکی امپورٹ پر عائد 5فی صد ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کردیا جائے اور کسٹمز ڈیوٹی کو11فی صد سے کم کر کے 3فی صد کردیا جائے۔ اس کے علاوہ تجویز ہے کہ hatching eggsپر عائد کسٹم ڈیوٹی کو 11فی صد سے کم کر تین فیصد کردیا جائے۔ اس عمل سے اس کاروبار کے inputsکی لاگت کو کم کرنے اور اس شعبے کو مزید ترقی اور فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ پولٹری کے کاروبار میں استعمال ہونے والی سات مختلف قسم کی مشینریوں پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فیصد سے کم کر کے 7فی صد کرنے کی تجویز ہے۔ اس اقدام سے اس سیکٹر میں سرمایہ کاری اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ملک میں شتر مرغ فارمنگ شروع ہو چکی ہے، جس کی بدولت نہ صرف خوراک میں پروٹین کے جزو کو بڑھانے میں مدد ملے گی، بلکہ ملک سے گوشت کی برآمد میں بھی اضافہ ہوگا۔ملک میں شتر مرغ فارمنگ کی حوصلہ افزائی کے لئے شترمرغوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ کی تجویز ہے۔ حکومت ملک میں مشینی فارمنگ کے فروغ کے لئے کاوشیں کر رہی ہے تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو سکے اور ملکی معیشت میں اس شعبے کا کردار مزید مستحکم بنایا جاسکے۔ نئی کمبائنڈ harvestersپر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ ہے، تاہم پرانی اور استعمال شدہ harvestersپر تین فیصد ڈیوٹی لاگو ہے۔ زرعی شعبے کو مزید ریلیف دینے اور وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی سفارش پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ کا دائرہ نئی اور پانچ سال تک پرانی اور استعمال شدہ harvestersتک بڑھانے کی تجویز ہے تاکہ ان کی ملک میں درآمد کم سے کم لاگت پر ممکن ہو سکے۔
ہیلتھ سیکٹر ہمیشہ سے حکومت کی ترجیح رہا ہے، مریضوں کو معیاری اور سستا علاج مہیا کرنے کے لئے کئی اقدامات پہلے سے ہی اٹھائے جا چکے ہیں۔ پچھلے برسوں کی طرح اس سال بھی اس شعبے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات کی تجویز ہے۔ (a)فارما، بائیو ٹیکنالوجی اور لائف سائنسز میں استعمال کو فروغ دینے کے لئے pre۔fabricated clean roomsکی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی 20فی صد سے کم کر کے تین فی صد کرنے کی تجویز ہے۔ (b) fabric۔(non woven)فارماسیوٹیکل سیکٹر میں surgical grown , bandage اور زخموں کی مرہم پٹی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کپڑے پر16فی صد ڈیوٹی عائد ہے جسے کم کر کے پانچ فی صد کیا جارہا ہے۔۔۔ آٹو پارٹس، پنکھوں اور برتن سازی کی صنعت سمیت جن صنعتوں میں خام مال استعمال ہوتا ہے، انہیں ریلیف دینے کے لئے ڈیوٹی کی شرح 10ٍِفی صدسے کم کر کے 5فی صد کی جا رہی ہے۔پاکستان بیت المال کا بجٹ 4 ارب سے بڑھا کر 6 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔ وفاقی حکومت نے عوام دوست، فلاحی و ترقیاتی بجٹ پیش کیا ہے: جس سے ملک میں معاشی ترقی کی رفتار تیز ہو گی اور میگا پراجیکٹس کی تکمیل سے عوامی مشکلات میں کمی ہوگی۔مالی سال 2017۔2018ء کے بجٹ مثبت اثرات پورے معاشرے پر ہوں گے۔یہ عوام کی امنگوں کی تائید کرے گا۔ غریب عوام کو اس کا فائدہ پورا فائدہ ملے گا۔