ماہ مقدس اور مہنگائی، خود اہل اسلام ذمہ دار، ایسا کیوں؟
یوں تو بارہ کے بارہ ماہ اللہ تعالیٰ کے ہیں اور ہر ماہ کی اپنی اپنی تقدیس ہے تاہم انہی میں سے بعض مہینے خیر و برکت اور مسلمانوں کے لئے انعام والے ہیں، رمضان المبارک کو تزکیہ نفس کا مہینہ کہا جاتا ہے کہ اس میں روزہ دار ایک مخصوص وقت کے لئے اللہ کی دی ہوئی نعمتیں خود اسی کے احکام کی روشنی میں خود پر ممنوعہ قرار دیتے ہیں اور یہ فرض اختیاری ہوتا ہے جس کا اجر خود اللہ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ مقصد کو ئی وعظ نہیں محض یاد دہانی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ عرض بھی کرنا ہے کہ دیانت، امانت اور سچ کسی ایک دن یا ایک ماہ کے لئے مختص نہیں، یہ اوصاف تو ہر انسان میں ہونا لازمی ہیں اور سب کو اس پر پورا اترنا چاہیے، تاہم ہمارے آئمہ اور علماء کرام اس ماہ کے تقدس کی وجہ سے دیانت، امانت اور سچائی پر بھی زور دیتے ہیں، چلیں یوں ہی سہی، لیکن یہ سب ہوتا نہیں کہ ہم مسلمان حقائق سے روگردانی کے عادی ہو چکے، ان کو کسی طور پر سمجھا لینا مشکل اور کاردارد محسوس ہوتا ہے چہ جائیکہ ان کو کفار کی مثالیں دی جائیں کہ عیسائی اور یہودی اپنے تہواروں پر رضاکارانہ طور پر اشیاء کی قیمتیں کم کر دیتے ہیں، یہاں بالکل الٹ ہوتا اور ہو رہا ہے کہ رمضان المبارک سے عیدین تک منافع خوری کا رجحان پایا جا رہا ہے۔ ذخیرہ اندروزی کی اور مہنگائی بڑھا دی جاتی ہے اور طریقہ قلت پیدا کرنے کا ہے۔
اس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ پٹرولیم مصنوعات کی آڑ میں مہنگائی کی گئی تاہم جب یہ مصنوعات ایک سو چار روپے لیٹر سے 64روپے فی لیٹر تک آئیں تو بڑھتے نرخوں میں کچھ کمی نہیں ہوئی اور جب یہ نرخ 74-72 روپے فی لیٹر تک پہنچائے گئے تو پھر پٹرولیم مصنوعات کی آڑ لے کر نرخ بڑھا دیئے گئے اور اب تو سیدھے سبھاؤ رمضان المبارک کی آمد نے منافع خوری کا ذریعہ پیدا کر دیا کہ طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ حالانکہ تاجر برادری اگر اللہ کا خوف کرے تو یہ حضرات طلب ہی کے اندازے کے مطابق کے مطابق رمضان کے لئے خریداری کرتے ہیں اور پھر ان کو تو شکر کرنا چاہیے کہ اشیاء زیادہ فروخت ہوں گی تو آمدنی بھی بڑھے گی اور آمدنی زیادہ ہو تو منافع بھی بڑھ جاتا ہے، بہرحال کسی مثبت عمل کی نشاندہی نہیں ہوئی۔
مہنگائی کے حوالے سے دو اور امور کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ ہمارے میڈیا والے نوجوان تھوڑی سی کوشش بھی نہیں کرتے اور نرخ سنے سنائے چلا دیتے ہیں، چھوٹی چھوٹی منڈیوں (مثلاً اقبال ٹاؤن+ ملتان روڈ سبزی+فروٹ منڈی) کے نرخ بھی بہت کم ہوتے ہیں جن کا ذکر خبروں میں بہت زیادہ قیمت بتا کر کر دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال ٹماٹر اور پیاز ہے کہ یہ منڈی میں پرچون کے حساب سے 20روپے کلو اور 25 روپے کلو تھے جب میڈیا پر قیمت بہت بڑھا کر پیش کی گئی اسی طرح دوسری سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا، نتیجہ پرچون نرخوں میں اضافے کا ہوا۔ سوال تو یہ ہے کہ پہلے ہی پرچون والے منڈی کی نسبت دس سے 20روپے فی کلو زیادہ قیمت لیتے ہیں جس کے لئے ان کے پاس عذر ہیں اور جب میڈیا پر خبر چلے تو وہ اس کے مطابق وصولی کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں ایک کنفیوژن کی صورت اور بوجھ صارف پر منتقل ہو رہا ہے۔
دوسرے خود حکومت بھی درست پالیسی اختیار نہیں کرتی۔ کوشش تو یہ ہونا چاہیے کہ رسد اور طلب میں فرق نہ بڑھے، طلب زیادہ ہے تو رسد کا اہتمام کیا جائے کہ اس بناء پر نرخ نہ بڑھیں۔ اس کے بجائے رمضان بازار لگائے گئے ہیں حالانکہ ایسا ہر سال ہوتا ہے اور فائدہ نہیں ہوتا کہ جو آٹا ان بازاروں کے لئے سرکار خریدتی یا ملوں کو بہم پہنچانے کے لئے کہتی ہے اس میں سے میدہ اور سوجی مقررہ نسبت سے زیادہ نکال لی جاتی ہے اور ان بازاروں میں آٹا زیادہ سفید سپلائی کیا جاتا ہے، جو اکثر لوگوں کے لئے پیٹ کے امراض کا باعث بنتا ہے۔ اگر حقیقت پسندی اور دیانت کے ساتھ طلب کا جائزہ لے کر رسد کا انتظام کیا جائے تو یہ زیادہ سود مند ہے، پھل بہرحال مہنگے کر دیئے گئے یہ بھی مانگ بڑھنے کے باعث ہوا۔
لوڈشیڈنگ حقیقی مسئلہ بن گیا جسے وزارت پانی و بجلی مناسب طور پر حل کرنے کی بجائے الزام تراشی کا سہارا لے رہی ہے جبکہ پریشان لوگ احتجاج پر اترے ہوئے ہیں، ہمارے نزدیک توڑ پھوڑ اور قبضہ کرنا یا سڑک بند کرکے ٹائر جلانا مناسب نہیں چہ جائیکہ کسی گرڈ پر قبضہ کیا جائے اور نقصان پہنچایا جائے لیکن یہ بھی تو درست نہیں کہ مسئلہ کو حل کرنے اور لوگوں سے پُرامن رہنے کی اپیل کرنے کی بجائے بجلی بند کرنے کی دھمکی دی جائے، جیسے وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے کہا اور اس سے پہلے عابد شیر علی ایک بار عملی مظاہرہ کر چکے ہوئے ہیں، حکومت وقت کو سارے پہلوؤں پر نظر رکھنا ہوگی اور محکموں کو غلط بیانی سے روکنا ہوگا جو 8 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کو دو سے چار گھنٹے کی بتاتے ہیں حالانکہ زمینی حقائق مختلف ہوتے ہیں، اس کے علاوہ بجلی کی بہمرسانی کا نقائص کی وجہ سے تعطل اپنی جگہ۔ حکومت وقت کا سارازور لوڈشیڈنگ ختم کرنے پر ہے لیکن عملی صورت آج بہت مختلف ہے بعض نئی ٹربائنوں کے افتتاح کے باوجود لوڈشیڈنگ میں کمی نہیں ہو سکی۔ یہ حکمران جماعت کے لئے مشکل پیدا کر رہی ہے۔
سیاست کے رنگ ڈھنگ اپنے ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے افطار پارٹیوں کے ذریعے سرگرمیوں کی ہدایت کی اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے جماعتی تنظیموں کو ہدایات بھی جاری کی ہیں لیکن ان پر فوری عمل تو نہیں ہوا، سنا ہے کہ تنظیمی عہدیداروں نے چیئرمین کی ہدایت آگے بھیج دی کہ چٹھی آئی ہے مقصد یہ کہ علاقائی تنظیمیں افطار پارٹیوں کا اہتمام کریں۔ حالانکہ یہ سب خود صوبائی عہدیداروں کو کرنا چاہیے تھا۔ روائت کے مطابق صوبائی اور ضلعی تنظیمیں پہلے خود یہ سلسلہ شروع کرتی تھیں اور پھر نچلی سطح پر تقریبات شروع ہوتی تھیں، حتیٰ کہ ایک دور میں تو عہدیدار حضرات ایک ایک روز میں کئی کئی افطار پارٹیاں نبھاتے تھے۔ آج چوتھا روزہ ہے، ابھی تک افطار سرگرمیاں شروع نہیں ہوئیں۔ اطلاع ہے کہ خود بلاول بھٹو جون کے پہلے ہفتے میں ہی لاہور آکر کارکنوں کو افطار کرائیں گے۔لاہور میں نئے صدر الحاج عزیز الرحمن چن نے پہلے روز افطار پارٹی دی سب پرانے جیالے تھے۔ تعداد معنی نہیں رکھتی۔