قومی اسمبلی ، خورشید شاہ کی تقریر براہ راست نہ دکھانے پر اپوزیشن کا وا ک آؤٹ
اسلام آباد(آن لائن)قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر کی تقریر پی ٹی وی پر براہ راست نہ دکھانے پر اپوزیشن کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ،اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حاضری اپوزیشن لیڈر کی تقریر براہ راست دکھانے سے مشروط کردی ہے۔اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت نے سپیکر کو متنازعہ بنا دیا ہے،اپوزیشن لیڈر کی تقریر سرکاری ٹی وی پر براہ راست نہ دکھانے کا فیصلہ وزارت اطلاعات کا نہیں بلکہ وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے گریڈ21کے افسر کا ہے،سپیکر قومی اسمبلی نے بجٹ بحث کا آغاز حکومتی اراکین سے کرکے قومی اسمبلی کی روایات کو توڑا ہے،ہم نے پی ٹی آئی کو مشورہ دیا تھا کہ پارلیمنٹ اصل طاقت ہے اس میں آکر بات کریں ،وفاقی وزیر رانا تنویر نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن کو بہت حقوق دیے ہیں جب ہم اپوزیشن میں تھے تو ہمیں یہ حقوق حاصل نہیں تھے۔وزیراعظم کی ایوان میں حاضری عمران خان سے زیادہ ہے،عمران خان کا رویہ آمرانہ ہے،خورشید شاہ چار سال اچھا کردار ادا کرنے کے بعد آج اپنا نام خراب نہ کریں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نادان دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہے۔انہوں نے حکومتی وزیر رانا تنویر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر جمہوریت اور اس کو نقصان پہنچا تو اس کے ذمہ دار ہم سب ہوں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کیا۔سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ ہم سپیکر کا احترام کرتے ہیں کہ کارروائی ایسے چلے جس پر حکومت اور اپوزیشن اعتراض نہ کریں،وہ زمانہ گزر گیا جب حکومت کی بات لوگ سنتے رہیں،ہمارا منہ زبان بند کردیں اور ہم سنتے رہتے ہیں،وزیراعظم نے کہا کہ شیر کبوتر کو کھا جاتا ہے لیکن کبھی کبوتر میں بھی جان آجاتی ہے،حکومت نے سپیکر کو مشکل میں ڈال دیا،حکومت نے فیصلہ کرکے سپیکر کو متنازعہ بنادیا،آج کی حکومت نے سپیکر کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا،یہ سیاسی فیصلہ نہیں ہوسکتا یہ وزیر اعظم ہاؤس سے21گریڈ کے آفیسر کا فیصلہ ہے،سیاسی سوچ والے ایسے فیصلے نہیں کرسکتے ایک بیوروکریٹ کا فیصلہ ہے،مذاکرات ہوتے ہیں بڑے بڑے مسئلے مذاکرات کے ذریعے حل ہوتے ہیں،آپ کو پرچی آگئی آپ نے کہا کہ میں اجلاس ملتوی کردیتا ہوں لیکن آپ نے نہیں کیا اس پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ میں روزے سے ہوں مجھے کوئی پرچی نہیں آئی۔اس پر خورشید شاہ نے کہا کہ آنکھوں کے جرونکوں سے آپ کو پتہ چل گیا تھا،کل سپیکر قومی اسمبلی نے روایات کو توڑا ہے بجٹ بحث کا آغاز حکومت کی طرف سے کیا گیا لیکن اس کو کون جانے گا،طاقت کے زور پر کرلیں گے لیکن طاقت کے بل بوتے پر ضیاء الحق اور پرویز مشرف بھی نہیں کرسکے،ہم نے اس جمہوریت کو قربانیاں دے کر بحال کیا،اس پارلیمنٹ کو کون مانے گا اس پارلیمنٹ کو آپ نے پاش پاش کردیاٹہم نے پی ٹی ائی کو کہا کہ اصل طاقت پارلیمنٹ ہے اس میں آکر بات کریں،آپ ایک براہ راست تقریر کروانے سے ڈرتے ہیں،جب میں کتابیں اپنے ڈائس پر رکھیں تو حکومت ڈر گئی پتہ نہیں کہ آج اپوزیشن لیڈر کیا تقریر کریں گے لیکن اگر کل میرا مؤقف آجاتا تو کیا قیامت آجاتی،میں وہ دن کہاں سے لاؤں کہ جب خورشید شاہ کے ہاتھ چومے جاتے تھے،ہم اس ملک کے 20کروڑ عوام کے نمائندے ہیں آپ کو عوام نے ووٹ دیا اور یہ آپ کا حق ہے کہ آپ پانچ سال حکومت کریں،لیکن یہ آپ کا حق نہیں ہے کہ آپ روایات کو توڑدیں،یہ باتیں ایک ڈکٹیٹر کرتے تو سمجھ میں آتی ہیں لیکن جب آپ اپنے وزیراعظم کو ڈکٹیٹر بنائیں گے تو معاملات نہیں چلیں گے،کیوں کہ ہم پرویز مشرف سے نہیں ڈرے تھے،اگر آپ ہمیں پی ٹی وی پر براہ راست دکھائیں گے تو ہم حاضر ہیں باوجود اس کے کہ آپ نے کل حکومت کو پہلے بجٹ بحث پر موقع دیا،ہم کل اچھی سوچ کے ساتھ آئے تھے لیکن حکومت نے اس ماحول کو خراب کیا ہے۔سپیکر نے کہا کہ آپ کی تقریر ریکارڈ کا حصہ بنے گا میری گزارش ہے کہ آپ تقریر کریں،جس پر اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ چےئرمین سینیٹ نے کہا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کی تقریر براہ راست ہونی چاہئے لیکن وہ چےئرمین تھے اور آپ سپیکر قومی اسمبلی ہیں،اس پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ میں نے سارا ریکارڈ نکال کر دیکھا ہے کہ صرف2015ء کے علاوہ آج تک کسی بھی اپوزیشن لیڈر کی تقریر براہ راست نہیں دکھائی گئی۔وفاقی وزیر رانا تنویر احمد نے کہا کہ خورشید شاہ نے جمہوریت کے لئے بہت کام کیا دھرنے پر انہوں نے بہت اچھا رول ادا کیا لیکن کچھ عرصے سے ان کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔وزیرخزانہ کی براہ راست تقریر جب سے ٹی وی آیا ہے تب سے چل رہی ہے۔رانا تنویر نے کہا کہ جو باتیں ایوان میں ہو رہی ہیں وہ عوام تک پہنچ رہی ہیں،جب مثبت کردار ادا ہوگا تو ہم نے پوری دنیا اس کو اچھا سمجھے گی،ہمارے دور میں جب ہم اپوزیشن میں تھے تو ہم کو یہ حقوق نہیں دئیے گئے لیکن موجودہ حکومت نے اپوزیشن کو بہت حقوق دیتے ہیں کیا اس کے پیچھے اور مقاصد ہیں کہ اپوزیشن لیڈر تقریر نہیں کر رہے۔اگر اپوزیشن کو نظرانداز کیا جارہا ہے تو بتائیں شور کریں لیکن جب ان کو بولنے کا موقع دیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شرارت کرنا چاہتے ہیں تو خورشید شاہ اس میں نہ آئیں،قومی اسمبلی کے اپنے رولز ہیں اور سینٹ کے اپنے رولز میں کبھی سپیکر کو جیت اور آنکھوں کے اشارے بتائے جارہے ہیں،چار سال گزر گئے ہیں ایک سال رہتا پھر ساری جماعتیں الیکشن میں جائیں گی۔پارلیمنٹ کی بساط لپیٹنے کی کوشش کی گئی لیکن آج شاہ صاحب اس بساط کو لپیٹنے والوں کے ساتھ ہیں۔وزیراعظم کی حاضری عمران خان سے زیادہ ہے،عمران کا رویہ آمرانہ ہے،جمہوریت کے خلاف چلنے والی پارٹی کے ساتھ خورشید شاہ کو نہیں چلنا چاہئے،چار سال اچھا کردار کرنے کے بعد آج اپنا نام خراب نہ کریں اور اپنا اچھا کردار ادا کریں،ان کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے گونوازگو اور گلی گلی میں شور ہے نوازشریف چور ہے کے نعرے لگا دئیے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نادان دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہے،حکومتی وزیر نے کہا کہ خورشید شاہ پھسل گئے ہیں ان کی عمر ہے پھسلنے کی،جن کی تعریف کرتے تھکتے نہیں تھے ان کا ہاتھ چومنے کیلئے پوری(ن) لیگ بے تاب رہتی تھی،آج ان کو جمہوری قدریں دکھائی جارہی ہیں،ن لیگ جو خدشات ہیں رانا صاحب دل سے نکال دیں اگر جمہوریت اور آئین کو نقصان پہنچتا ہے تو اس کے ہم سب ذمہ دار ہیں،یہ اپنے ذہن سے یہ چیزیں نکال دیں جمہوریت میں ہم نے اپنی روایات کو طے کرنا ہے،حکومت نے بجٹ بحث کا آغاز کر دیا ہے اچھی روایات کیلئے حکومت نے اپنا نقطہ نظر پیش کردیا ہے اب اپوزیشن کا نقطہ نظر میں آنا چاہئے،آپ نے بجٹ پیش کیا لیکن پھر حکومت اس بجٹ کی اہمیت کو گنوا دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں سپیکر قومی اسمبلی کے رویے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔حکومت جب کسی مشکل میں آتی ہے تو سپیکر کا سہارا لیتی ہے،جیسے فوجی عدالتوں میں سپیکر قومی اسبملی سے پارلیمنٹ کی کمیٹی کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی نے کی جو کچھ کیا جارہا ہے اس سے حکومت کی اپنی اہمیت کم ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ کل زبردستی بحث کا آغاز کردیاگیا،حکومت نے کچھ حاصل نہیں کیا بلکہ نقصان میں گئی ہے،اگر اپوزیشن لیڈر کی تقریر براہ راست آجاتی تو کیا ہوجاتا،اس سے کیا حکومت گرنے کا کوئی خطرہ تھا،اگر براہ راست تقریر نہ ہونے دی گئی تو یہ بجٹ سیشن بے معنی ہوجائے گا۔ اکثریت اقلیت کو ساتھ لیکر چل رہی ہے لیکن قومی اسمبلی میں اور رویہ اختیار کیا گیا،میں ماحول میں بگاڑ نہیں ڈالنا چاہتا،اگر ہم باہر جاکر احتجاج کرتے ہیں تو اس سے اپوزیشن کو فائدہ ہوگا اور حکومت نقصان میں رہے گی،حکومت بجٹ پاس کرلے لیکن حکومت کو اس کا سیاسی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ براہ راست نشر نہ کریں لیکن پہلی تاریخ کو صدر پاکستان نے آنا ہے کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ ایوان چلے تو آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا،اقلیت کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اکثریت اقلیت کو ساتھ لیکر چلتی ہے،میری گزارش ہے حکومت سے کہ وزیراطلاعات کے پاس اختیارات نہیں ہیں لیکن اوپر سے اجازت لے لیں اور اپوزیشن لیڈر کی تقریر کو براہ راست نشر ہونے دیں۔خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا ہوسکتا ہے کہ کل کوئی جواب آجائے تب تک کیلئے واک آؤٹ کرتے ہیں۔شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ وہ روایات ڈالیں جو آپ کل برداشت کرسکیں اگر کوئی(ن) لیگ کے لیڈر کے خلاف بات کرے گا تو ہم بھی بات کریں گے،مجھے دو چیزیں نظر آئی ہیں ایک تو حکومت نے بہت اچھا بجٹ پیش کیا لیکن دوسری بات ان کی تیاری نہیں ہے لیکن براہ راست تقریر نشر کرنے کی کوئی ایسی بات نہیں شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ وہ روایات ڈالیں جو آپ کل برداشت کرسکیں اگر کوئی(ن) لیگ کے لیڈر کے خلاف بات کرے گا تو ہم بھی بات کریں گے،مجھے دو چیزیں نظر آئی ہیں ایک تو حکومت نے بہت اچھا بجٹ پیش کیا لیکن دوسری بات ان کی تیاری نہیں ہے لیکن براہ راست تقریر نشر کرنے کی کوئی ایسی بات نہیں ہے۔اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کیخلاف پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر منی پارلیمنٹ لگانے کا اعلان کردیا ہے ،اس ضمن میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے درمیان مقامی ہوٹل میں اہم ملاقات ہوئی جس میں بجٹ سیشن کے دوران حکومت کے خلاف پارلیمنٹ کے باہر دھر نا دینے کا اعلان‘ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہاں مقامی ہوٹل میں ملاقات ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے ملاقات میں طے پایا کہ سراج الحق تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں سے فرداً فرداً ملاقات کریں گے اور حکومت کے خلاف پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر منی پارلیمنٹ لگانے اور دیئے جانے والے دھرنے کے حوالے سے حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔اس دوران اپوزیشن جماعتیں عوامی بجٹ بھی پیش کریں گی۔
واک آؤٹ
اسلام آباد (آن لائن) قومی اسمبلی میں حکومت کی حلیف جماعتوں نے بھی بجٹ کو عوامی دشمن قرار دیدیا، حکومتی اراکین اسمبلی بجٹ پر بحث کے دوران بجٹ کے فیگرز اور گزشتہ دور حکومت سے موازنہ کرنے کی بجائے صرف وزیراعظم پاکستان اور اسحاق ڈار کی تعریف کرتے رہے اور اپوزیشن کی جانب سے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی تقریر آن ایئر نہ کرنے پر اپوزیشن کے واک آؤٹ پر سخت تنقید بھی کرتے رہے، بجٹ پر بجث کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) راؤ اجمل نے کہا کہ جب حکومت اقتدار میں آئی تو لوڈشیڈنگ ہمیں ورثے میں لی، حکومت کی کوششوں سے 2018میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا زراعت کی سبزی کیلئے قرضہ جات کی شرح بڑھائی جائے ایک ایکڑ کی قیمت30لاکھ روپے ہے لیکن اس پر صرف50,000 روپے قرضہ ملتا ہے جو کہ انہتائی کم ہے ،زرعی آمدت پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جائے زرعی آبیانہ اور انکم ٹیکس کو بھی کم کیا جائے، زرعی انکم ٹیکس بارانی 100اور دوسرے 500روپے کرایا جائے، ملک میں15سے 20ایکڑ رقبہ موجود ہے جہاں پر کاشت کاری ہو سکتی ہے لیکن صرف 3کروڑ اراضی کاسٹ کی جارہی ہے، تمباکو کی درآمدگی پر پابندی لگائی جائے، خشک دودھ پر50فیصد ٹیکس ڈیوٹی لگائی جائے تاکہ ملک ڈیری کی انڈسٹری کو سپورٹ مل سکے، ممبر قومی اسمبلی غوث بخش مہر نے بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ کچھ شعبوں میں زیادہ بجٹ رکھا گیا ہے اور انڈسٹری کو سپورٹ کیا گیا ہے لیکن بعض کو نظرانداز کر دیا گیا ہے، زمین تباہ ہو رہی ہیں سندھ کو پانی نہیں دیا جاتا جب پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو نہریں خالی ہوتی ہیں اور جب پانی کی ضرورت نہیں ہوتی تو ہمارے زمین خراب کر دی جاتی ہے، صوبے میں ریسرچ سینٹرز بنانے کی ضرورت ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ میں ایک بھی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا، سندھ کو سی پیک کا پورا حصہ دینا چاہئے، جے یو آئی (ف) کی ممبر قومی اسمبلی شاہدہ اختر نے بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ کل سے ایوان کا ماحول بگڑتا جارہا ہے، ایک جماعت ہے جس کو ملک اور قوم کی ترقی برداشت نہیں ہو رہی، 2017-18کی بجٹ جا کا 47.53کھرب روپے ہے اور حکومت کا یہ پانچواں بجٹ ہے حکومت کو بے پناہ چیلنجز کا سامنا ہے، قرضوں سے چھٹکارے کیلئے ہمیں اپنے اخراجات کم کرنے ہونگے، کسانوں کو فوائد دینے جائیں اور ان ڈائریکٹ ٹیکس کو ختم کرکے ڈائریکٹ ٹیکس لاگو کئے جائیں، بجٹ کے اندر کچھ بھی نظر نہیں آرہا، ممبر قومی اسمبلی مہر اشتیاق احمد نے کہا کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، حکومت نے محنت اور کوشش سے اچھا بجٹ پیش کیا ہے، وزیراعظم نے اپنے دور میں پرفارم کیا ہے اور اسے دنیا مانتی ہے، انگلی اٹھانے والے اداروں پر الزامات لگاتے تھے اور ان کو یہ ہضم نہیں ہو رہا ہے کہ جی ڈی پی5.3تک پہنچ چھا ہے، اپوزیشن کو بھی چاہئے تھا اور وہ یہاں آگر دیکھتیں کہ ہم نے کیسا بجٹ پیش کیا ہے، جے یو آئی (ف) کے قومی اسمبلی مولانا میر زمان نے بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کی یہ خوبی ہے کہ موجودہ حکومت نے پانچواں بجٹ پیش کرایا بجٹ ہمیشہ غریب عوام کیلئے ہوتے ہیں اور ایسے لوگ جن کا کوئی اسرا نہیں ہوتا، ان کا خیال رکھنا چاہئے، ملک کے اندر ایسے علاقوں کی بڑی تعداد موجود ہے جہاں انسان اور حیوان ایک جگہ پانی پیتے ہیں اور سڑکیں بھی موجود نہیں ہیں لیکن بجٹ میں ان کیلئے کچھ بھی نہیں ہے، ممبر قومی اسمبلی چوہدری جعفر اقبال نے بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی کارکردگی قابل تعریف رہی ہے اور کل والے ایوان نے ماحول کی مذمت کرتا ہوں، اور کارکردگی کی بنیاد پر ہی عوام کے مسلم لیگ (ن کو مینڈیٹ دیا،2013الیکشن میں جن لوگوں نے حکومت کے خواب دیکھے تھے اب وہ کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے گھیراؤ اور دھرنے کی سیاست کا سہارا لیا اور الیکشن کو چیلنج کر دیا موجودہ حکومت نے بجٹ میں استحکام پیدا کیا ہے ، آج چار سال مکمل ہونے پر کارکردگی واضح ہے گزشتہ بجٹ کے مقابلے میں موجودہ بجٹ عوام کی امنگوں کے مطابق ہے۔
بجٹ بحث