شوکت خانم کینسر ہسپتال:خواب سے تعبیر تک

شوکت خانم کینسر ہسپتال:خواب سے تعبیر تک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


دین ِ اسلام کودنیا کے تمام مذاہب میں یہ امتیاز اور انفرادیت حاصل ہے کہ اسلام میں جہاں عبادات کو بنیادی اہمیت دی گئی،وہیں معاملات اور اخلاقیات بھی دین میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔اسلامی فلسفہ حیات کے مطابق حقوق العباد کو حقوق اللہ پر دہری اہمیت حاصل ہے۔خدمت خلق اور رفاہِ عامہ کا تصور درحقیقت حقوق العباد اور احترام انسانیت کے اسلامی فلسفے کی اساس ہے،جس سے اسلام میں اس کی عظمت و اہمیت کا پتا چلتا ہے۔سورۃ المائدہ میں ارشاد ربانی ہے:
اے ایمان والو!نیکی اورپرہیزگاری(کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون ومدد کرو اور گناہ اور برائی (کے کاموں)میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ِگرامی ہے:
لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے۔(جامع ترمذی)
مخلوق خدا کی خدمت کرنا، ان کے کام آنا، ان کے مصائب و آلام کو دور کرنا، ان کے دکھ درد کو بانٹنا اور ان کے ساتھ ہمدردی و غم خواری اور شفقت کرنے پر شریعت نے زور دیا ہے۔


نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
رحمت کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے، تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو،آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔(صحیح مسلم)
اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ عبادت صرف نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کا نام نہیں،بلکہ ہر سانس پر، ہر قدم اور ہر معاملے میں اطاعت الہٰی کا نام ہے اور اطاعت الہٰی میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں شامل ہیں اور انہی حقوق کی کماحقہ ادائیگی پر معاشرے کی صحت اور حسن کا دارومدار ہے۔ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی عیال ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا،ساری مخلوق اللہ تعالی کا کنبہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالی کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ وہ آدمی ہے جو اس کے کنبے (مخلوق) کے ساتھ نیکی کرے۔
اسلام کی زریں تعلیمات سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس کے دکھ درد میں شریک ہونا اس کے لیے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔کسی بھی چیز کو نظر انداز کر کے خود کو اپنی ذمہ داری سے دور کیا جا سکتا ہے، لیکن خدمت خلق ایک ایسا فریضہ ہے جسے کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالی کا اِرشاد ہے کہ میں تمہیں اپنے تمام حقوق بخش دوں گا، لیکن اپنے بندے کے کسی حق کو نہیں بخشوں گا۔ کسی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنت کا ذریعہ ہے، کسی دکھی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول ﷺ بھی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اللہ جو رحمٰن بھی ہے اور رحیم بھی۔اپنی مخلوق کو بیماری دے اور اسباب کے تحت اس کا مداوا نہ کرے۔ صحت و تندرستی کتنی بڑی نعمت ہے یہ کوئی بستر علالت پر پڑے ایک علیل انسان سے پوچھے۔
پاکستان کو ریاست مدینہ کا ماڈل بنانے کا عزم رکھنے والے وزیر اعظم عمران خان سرکاری ہسپتالوں میں ایسا مینجمنٹ سسٹم لانے کی بات کر رہے ہیں جس سے کارکردگی کی پڑتال کی جاسکے اچھا کام کرنے والوں کو سراہا جائے اور ناقص کارکردگی پر جواب طلبی کی جاسکے۔ ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں وسائل کے فقدان کے بعد سب سے بڑا مسئلہ شفاف کارکردگی کے بحران کا ہے۔ ہسپتال میں لوگ ہمدردی اور اچھے سلوک کی توقع کرتے ہیں مگر سرکاری ہسپتالوں میں لوگوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے محتاجِ بیان نہیں۔ کم گنجائش، محدود سہولیات اور ناکافی عملہ واقعی ایک مسئلہ ہے مگر ان سہولیات کو اگر پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ بروئے کار لایا جائے تو وقت اور وسائل کا بہت سا ضیاع رک سکتا اور حقدار اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔لیکن ہسپتال کی مینجمنٹ کا نظام بہتر کیے بغیر ایسی اصلاحات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کام اس عمران خان کے لئے قطعاً مشکل نہیں جس نے 29 دسمبر1994 کو شوکت خانم کینسر میموریل ہسپتال کی بنیادا رکھی تو اس وقت یہ ایک نا ممکن کام لگتا تھا۔آج یہ ہسپتال عوام کے بے لوث تعاون اور پھر پور اعتماد کی بدولت کینسر جیسے موذی مرض کی سب سے بڑی علاج گاہ ہے۔پاکستانیوں کی بے پناہ پذیرائی اس فلاحی ادار ے کی بنیاد میں شامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ غریب مریضوں کے مفت علاج کی مثال دنیا کے کسی پرائیویٹ ہسپتال میں نہیں ملتی۔اس ہہسپتال میں ہر سال ہزاروں نئے مریض رجسٹرڈ اور لاکھوں مریض آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ سے مستفید ہوتے ہیں۔


انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں ایک کروڑاسی لاکھ افراد کینسر میں مبتلا ہوئے جن میں سے چھاتی،آنتوں اور منہ کے کینسر کے 50لاکھ سے زائد کیس اگر بر وقت تشخیص کر لیے جاتے تو مریضوں کی جان بچنے کے امکانات بھی بڑھ سکتے تھے۔ کینسر سے ہلاک ہونے والے آدھے افراد کا تعلق ایشیا سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں دل کے امراض کے بعد کینسر دوسری بڑی وجہ اموات بن چکا ہے۔
شوکت خانم ہسپتال میں 75 سے80فیصد مریضوں کوعلاج بلا معاوضہ فراہم کیا جاتا ہے۔ شوکت خانم ہسپتال کو وصول ہونے والی زکوٰۃ کی رقم صرف اور صرف مستحق مریضوں کے علاج پر خرچ کی جاتی ہے۔ الحمد للہ شوکت خانم ہسپتال لاہور 24سال اور پشاور 3سال سے کینسر کے مریضوں کو عالمی معیار کے مطابق تشخیصی اور معالجاتی سہولیات فراہم کر رہا ہے اور اس وقت یہ دونوں ہسپتال جدید ترین مشینوں اور تجربہ کار سٹاف سے لیس ہیں۔ ا س کا سارا کریڈت پاکستانی عوام کو ہی جاتا ہے کیونکہ یہ ہسپتال پاکستانی عوام نے بنایا اور انہیں کے بے لوث تعاون کی بدولت چل رہا ہے۔


تمام پاکستانیوں کے لئے فخر کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے تیسرے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹرکراچی کی تعمیر کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس مکمل اور جامع کینسر ہسپتال کی تعمیر سے نہ صرف سندھ اور ملحقہ علاقوں کی عوام کو کینسر کے علاج کی جدید ترین معالجاتی سہولیات میسر آئینگی بلکہ مجموعی طور پر وسیع علاقے میں ہیلتھ کیئر کے اعلیٰ معیار کو بڑھانے میں مدد ملنے کے ساتھ ساتھ تربیت اور روزگار کے نئے مواقع بھی ملیں گے۔
کینسر کا علاج اکثر طویل ہوتا ہے اور بدقسمتی سے جنوبی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بہت سے نادار کینسر کے مریضوں کے لیے لاہور یا پشاور میں موجود شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اورریسرچ سینٹرز میں علاج کی خاطر بار بار جانے کا سفر تکلیف دہ اور ناقابل برداشت ہوتا ہے۔شوکت خانم میموریل ٹرسٹ پاکستان کے تمام علاقوں میں بسنے والے افراد کو علاج کی یکساں سہولیات فراہم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔کراچی کا یہ ہسپتال پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کے افراد میں کینسر کے علاج کے لیے دستیاب سہولیات کے حوالے سے احساس محرومی ختم کرنے کا باعث بنے گا۔یہاں پاکستان کے علاوہ افغانستان سے بھی کافی تعداد میں آنے والے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کراچی کی تعمیر تین سال کے اندر مکمل ہونے کی توقع ہے جس پر9 ارب روپے کی لاگت آئے گی یہ وہ عظیم منصوبہ ہے جس پر ہر پاکستانی بلا تفریق رنگ ونسل فخر کرسکتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -