کورونا وائرس ویران پڑے میدان آہستہ آہستہ آباد ہونا شروع ہوگئے
کورونا وائرس کی وجہ سے ویران پڑے انگلینڈ کے میدان آہستہ آہستہ آباد ہونا شروع ہوگئے ہیں،بولرز نے باضابطہ طور پر ٹریننگ کا آغاز کیا، بورڈ کی جانب سے 18 بولرز کو اپنے متعلقہ کاونٹی گراونڈز پر پریکٹس شروع کرنے کاکہا گیا ہے۔ ٹریننگ کا آغاز کرنے والوں میں اسٹورٹ براڈ اور کرس ووئکس بھی شامل تھے۔ براڈ نے ٹرینٹ برج جبکہ ووئکس نے ایجبسٹن میں پریکٹس شروع کی، ابتدائی روز 45 منٹ کا سیشن تھا، کھلاڑیوں کو فل کٹ میں ٹریننگ کو کہا گیا تھا۔بولنگ سے زیادہ توجہ شٹل رن اور دیگر ایروبک سرگرمیوں پر مرکوز رہی، کھلاڑیوں کو پہلے ہی ہدایت کردی گئی تھی کہ وہ دوران ٹریننگ باربار ہاتھ دھوتے رہیں، اپنے سامان اور موبائل کو بھی جراثیم کش کپڑے سے صاف کریں، ہاتھ ملانے اور ایک دوسرے کے قریب جانے پر بھی پابندی ہے، اگرچہ بولرز کو اپنی اپنی گیندیں دی گئی ہیں تاہم انھیں ان پر بھی تھوک یا پسینہ لگانے سے روک دیا گیا۔ بولرز سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی سہولت سے ٹریننگ جوائن کرسکتے ہیں۔جبکہ انگلش کرکٹ بورڈنے پاکستان کیخلاف اس سال ہونیوالی سیریز کا مجوزہ پلان تیار کرلیا ، پلان کے مطابق پاکستان ٹیم 5 اگست سے یکم ستمبر کے درمیان مانچسٹر اور ساتھمپٹن میں 3 ٹیسٹ اور 3 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گی۔پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوشش ہے کہ پلیئرز ایسے وقت انگلینڈ پہنچیں کہ انہیں قرنطینہ میں وقت گزارنے کے بعد پریکٹس کا بھی موقع مل جائے۔دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا کے بعد آہستہ آہستہ کھیلوں کی سرگرمیاں بحال ہونے لگی ہیں، کرکٹ کی سرگرمیاں بھی کچھ ہفتوں میں بحال ہوجائیں گی۔ اگست میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان سیریز طے ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے گرین سگنل کے بعد ای سی بی نے سیریز کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ عبوری پلان کے مطابق پاکستان نے پانچ اگست سے یکم ستمبر کے دوران تین ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے ہیں۔ پہلا ٹیسٹ 5 اگست سے مانچسٹر میں کرانے کی تجویز ہے۔ دوسرا ٹیسٹ 13 اگست اور تیسرا ٹیسٹ 21 اگست سے ساتھمپٹن میں کھیلنے کا پلان تیار کیا جارہا ہے۔تینوں ٹی ٹوئنٹی میچز مانچسٹر میں 28، 30 اگست اور یکم ستمبر کو ہوں گے۔جبکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے تمام کھلاڑی موجودہ حالات میں انگلینڈ جانے کو تیار ہیں۔ کھلاڑیوں کے پاس دستبرداری کا آپشن کے باوجود ابھی تک کسی کھلاڑی نے انگلینڈ جانے سے انکار نہیں کیا ہے۔ بورڈ کی جانب سے کھلاڑیوں اور ان کے اہل خانہ کے لئے انشورنس اسکیم متعارف کی جارہی ہے۔ انگلینڈ کے مشکل ترین حالات میں کھلاڑیوں کو گراؤنڈ اور ہوٹل کے علاوہ کسی اور جگہ جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کھلاڑیوں کے ساتھ ان کے اہل خانہ نہیں جاسکیں گے۔ وسیم خان نے کہا کہ غیرمعمولی حالات میں کھلاڑیوں کی لاہور میں ٹریننگ کے حوالے سے ہر طرح کے انتظامات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ذاکر خان نے کہا کہ پی سی بی نے نئے سنٹرل کنٹریکٹ میں کھلاڑیوں کی فیملی کے ہمراہ انشورنس کو یقینی بنایا ہے۔ دوسری جانب پی سی بی کا میڈیکل پینل کوچز سے مل کر کیمپ لگانے کے انتظامات کا جائزہ لے رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اکیڈمی میں اتنے کمرے نہیں ہیں جس میں ایک وقت میں 25کھلاڑی اور سپورٹ اسٹاف رہ سکے۔ کیمپ لگانے کی صورت میں کھلاڑیوں کو ہوٹل میں رکھنا ہوگا۔ لاہور میں پاکستانی ٹیم کے کورونا ٹیسٹ ہوں گے۔ انگلینڈ پہنچ کر ٹیسٹ دوبارہ ہوں گے۔پی سی بی حکام نے اپنے کوچز اور میڈیکل پینل کے ساتھ سینٹرل کنٹریکٹ والے کھلاڑیوں سے ویڈیو لنک پر کورونا وائرس کے دوران انگلینڈ کے دورے کے حوالے بات چیت کی۔ 25کھلاڑی جولائی کے پہلے ہفتے میں انگلینڈ روانہ ہوں گے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی گائیڈلائنز کے مطابق جون کے اوائل میں لاہور میں ٹریننگ سیشنز کے انعقاد کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ پی سی بی کھلاڑیوں کے ساتھ مزید بات چیت کرتا رہے گا۔ بظاہر آئندہ 3 ماہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو بائیو سیکیور انتظامات میں رہنا پڑے گا۔جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سینٹرل کنٹریکٹ سے باہر ہونے کے بعد فاسٹ بولر وہاب ریاض اور محمد عامرناراض ہیں۔ انہوں نے فیصلے کے خلاف خاموش احتجاج کرتے ہوئے کرکٹ ٹیم کے فٹنس واٹس ایپ گروپ سے اپنا نام باہر نکال لیا۔ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق نے انٹرویو میں بتایا کیا کہ دونوں کھلاڑیوں نے غلط فہمی میں گروپ چھوڑ دیا تھا دونوں جلد اس گروپ کا حصہ ہوں گے۔ دونوں کا خیال ہے کہ یہ فٹنس گروپ صرف سینٹرل کنٹریکٹ والے کھلاڑیوں کے لئے مخصوص ہے۔ اس گروپ میں ہر کھلاڑی کو فٹنس کے بارے میں پروگرام سے آگاہ کیا جاتا ہے جبکہ جدید ڈیجیٹل گھڑی سے ہمارے پاس ہر کھلاڑی کی فٹنس کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ اس گھڑی کی مدد سے کھلاڑی دنیا میں جہاں بھی ہوتا ہے جتنی ٹریننگ کرتا ہے ہمارے پاس اس کا ریکارڈ آجاتا ہے۔ انگلینڈ کے دورے کے حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ نے کھلاڑیوں کے لئے جس آن لائن بریفنگ کا اہتمام کیا تھا اس میں بھی شعیب ملک، محمد حفیظ، وہاب ریاض اور محمد عامر مدعو نہیں تھے۔ مصباح الحق نے کہا کہ میں خود دونوں سے بات کرکے اس غلط فہمی کو دور کردوں گا۔ پاکستان ٹیم منتخب کرتے وقت بھی ان کے ناموں پر غور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چند ہفتے پہلے ہم نے آسٹریلیا سے تیس ڈیجیٹل گھڑیا ں منگوائی ہیں اور یہ گھڑیاں سینٹرل کنٹریکٹ والے کھلاڑیوں کے پاس ہیں۔ کوئی سینٹرل کنٹریکٹ میں نہیں ہے تو اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ہمارے پلان کا حصہ نہیں ہے۔ دو نوجوان فاسٹ بولروں کو سینٹرل کنٹریکٹ میں جگہ دینے کے لئے محمد عامر اور وہاب ریاض کو سینٹرل کنٹریکٹ نہیں دیا گیا تھا۔ عامر،وہاب ریاض،شعیب ملک،محمد حفیظ اور کامران اکمل سمیت کو ئی بھی کھلاڑی پاکستان ٹیم میں جگہ بناسکتا ہے۔ محمدعامر اور وہاب ریاض کی جانب سے بھی محدود طرز کی کرکٹ پر توجہ دینے کے اعلان کے بعد یہ فیصلہ درست ہے۔دوسری جانب آسٹریلیا میں شیڈول ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ پر آئی سی سی کا اہم اجلاس28مئی کو ہوگا، بورڈ میٹنگ میں صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا،بھارت آئی پی ایل کی وجہ سے التوا پر ڈٹ گیا،ٹورنامنٹ کو2022 میں منتقل کرنے کی تجویز بھی پیش ہو گی۔ٹیلی کانفرنس میں کھیل کے دیگر معاملات بھی زیر بحث آئیں گے۔اس سے قبل انیل کمبلے کی زیرسربراہی کرکٹ کمیٹی کی میٹنگ بھی ہو گی۔ ادھرآسٹریلوی کرکٹرز کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا رواں سال انعقاد مشکل نظر آنے لگا، ڈیوڈ وارنر کا کہنا ہے کہ 16ٹیموں کو یکجا کرنا آسان نہیں ہوگا،ایرون فنچ نے کہا کہ ایک، 2 یا 3 ماہ بعد بالاخر میگا ایونٹ کو ملتوی کرنا پڑے گا،کرس لین نے کہا کہ انتظامی امور جوئے شیر لانے کے مترادف ہوں گے۔ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ رواں برس 18 اکتوبر سے 15 نومبر تک آسٹریلیا میں شیڈول ہے۔ ٹیلی کانفرنس میں ایونٹ کی منسوخی جیسے کسی بھی حتمی فیصلے کا کوئی امکان نہیں ہے،البتہ التوا ممکن ہوگا، بورڈ موجودہ صورتحال کا جائزہ لے گا جبکہ مقامی آرگنائزنگ کمیٹی کی جانب سے اپ ڈیٹس بھی فراہم کی جائیں گی، جس سے زمینی حقائق کو سمجھنے میں مدد ملے گی، اسی طرح کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ہنگامی پلانز پر بھی غور کیا جائے گا۔اس سے قبل انیل کمبلے کی زیرسربراہی آئی سی سی کرکٹ کمیٹی کا اجلاس بھی ہو گا۔دوسری جانب آسٹریلوی کرکٹرز کی اکثریت کو رواں سال میگا ایونٹ کے انعقادکی امیدیں نظر نہیں آرہیں،جنوبی افریقہ کے سابق کپتان فاف ڈوپلیسی نے اس حوالے سے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ شریک کرکٹرز کے ایونٹ سے قبل اور بعد میں 2، 2 ہفتہ قرنطینہ سے ورلڈ کپ اپنے شیڈول پر ہی منعقد ہوسکتا ہے، میں نے کہیں پڑھاکہ بہت سے ممالک کیلیے سفر ہی سب سے بڑا مسئلہ ہوگا، یہ ایک حقیقت ہے کہ کورونا وائرس سے آسٹریلیا زیادہ متاثر نہیں ہوا مگر بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ اور بھارت جیسے ممالک میں اس وائرس کا خطرہ زیادہ رہا ہے، اس لیے دوسرے ممالک کے کھلاڑیوں کے وہاں جانے سے صحت کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے، اگر آپ ورلڈکپ شروع ہونے سے 2 ہفتے قبل قرنطینہ اور پھر ایونٹ کھیلنے کے بعد بھی ایسا کرتے ہیں تو پھر خطرے کو کم سے کم رکھنا ممکن ہوگا۔