ہن تینوں گھروں کڈ دئیے
(نوٹ کالم کا پہلا حصہ عید کا کالم سمجھا جائے کیونکہ اتنا حصہ ہم نے عید کے دوران سوچا تھا)
عید کی نماز پڑھنے ہم عین حفاظتی شریعت کے مطابق پہنچے،یعنی چہرے پہ ماسک اور ہاتھوں میں نوے نکور گلوز،بارہ 'گِٹھیں ' ناپ کے اپنی جائے نماز بچھائی۔ایک ایک کا چہرہ دیکھا پورے کا پورا بے ماسکے پھر ہاتھوں پہ نظر پڑی تو بغیر گلوز کے چٹے سیاہ۔یقین کریں بہت شرمندگی ہوئی ایسا لگا جیسے ہم اونٹ ہوں اور باؤلے گاؤں میں آگئے ہیں۔ہم نے شرمندہ شرمندہ پہلے گلوز اتارے پھر ماسک۔۔ہر بندہ ہمیں ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو 'نواں آیاں ایں سوہنیا'۔ہم نے یہی سوچا جب پوری قوم خودکشی کے لیے تیار ہے تو ہم اکیلے رہ کر کیا توپ چلالیں گے۔کورونا سے اب ہماری کھلی ڈلی جنگ یعنی آپ نہیں یا گاہک نہیں۔یاد رکھیں آنے والے دن بہت بھیانک ہیں،کورونا کے ہاتھوں ہم تو ناک آؤٹ ہونگے ہی ہماری کرتوتوں سے بے چارے ڈاکٹرز بھی اپنی جانیں داؤ پہ لگائیں گے۔سنتا سنگھ پریشانی میں بنتا سنگھ سے بولا یار کورونا سے ملک تیس سال پیچھے چلاگیا،بنتا غصے سے بولا تیس سال ہو ں یا پچاس میں واپس سکولے نئی جانا۔دیکھیں ہم کتنا پیچھے جاتے ہیں کیونکہ پٹرول کی قیمت جوں جوں واپس جارہی ہے لگتا ہے تانگوں کی بہار آنے والی ہے۔خدارا یہ مذاق نہیں کورونا کا تازہ حملہ بہت بھیانک ہے اس پہ 'راہواں اوکھیاں ' ہورہی ہیں اور باقی خیر سے سانوں مرن دا شوق وی اے۔
ہم بت شکن ہوں نہ ہوں احسان شکن ضرور ہیں ورنہ یہ مان لینے میں کیا حرج ہے کہ ایٹم بم مشن میں ذالفقار علی بھٹو شہید نواز شریف غازی اور ڈاکٹر عبدالقدیر کے کردار کو کھلے دل سے تسلیم کرلیں۔اور تو شیخ رشید جیسا بھگوڑا(جو سمجھا تھا کہ دھماکے کے شور سے کہیں انکے کان اور دیگر پردے نہ پھٹ جائیں)وہ بھی اس عظیم کارنامے پر اول جلول دعوے کرتا پھررہاہے۔سنتا سنگھ بطور وزیراعظم ایٹمی دھماکا کرنے جارہاتھا راستے میں اس نے گاڑی رکوائی اور ایک دوکان کی طرف لپکا سکیورٹی میں تھرتلی مچ گئی سکیورٹی گارڈ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو وہ بولا ماچس لینی ہے۔گارڈ نے پوچھا سر وہ کیوں۔سنتا سنگھ بولا کاکا ایٹمی دھماکا ایویں نئی ہوندا بم اگ لانی پیندی اے۔شیخ صاحب ہمارے سنتا سے کم تھوڑا ہیں۔بھیا انسان سے لاکھ اختلاف ہو اسکی کیتیاں اس نے بھگتنی ہیں۔لیکن اگر وہ کوئی چنگا کام کرے تو مان لینے میں کوئی حرج نہیں۔آج پاکستان الحمدللہ کورونا اجیت ڈوڈل اور ڈونلڈ ٹرمپیوں کے باوجود محفوظ ہے ہماری افواج ہمیشہ کی طرح الرٹ،طاقتور اور ہر چیلنج کا منہ توڑنے کو تیار ہے۔میرا یقین ہے جنرل باجوہ ڈاکٹرائن کا خاموش جادو تبت لداخ اور نیپال میں سر چڑھ کے بول رہاہے۔میری بات لکھ لیں (سمجھ لیں یہ ننانوے سالہ سنیاسی بابا کی بات ہے)امریکا کورونا کے بعد مزید کمزور ہوگا۔وہاں ہنگامے مظاہرے شروع ہوچکے یہ سلسلہ رکے گا نہیں ریاستوں میں بغاوت ہونگی۔چین نئی عالمی قوت کے طور پہ ابھرے گا۔اگوں پتہ نہیں وہ ہم سے آنکھیں بدلتا ہے یابندے دا پتر ہی رہتا ہے۔یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
پی ٹی وی وہ نیستی مارا آٹا ہے جو گوندھنے میں آتا ہے نہ پکانے میں۔ایسا لگتا ہے پی ٹی وی سنتا سنگھوں بنتا سنگھوں کے ہتھے چڑہ گیا ہے۔بنتا سنگھ کی ماں بولی بیٹا کپڑے بدل لو رشتہ دیکھنے آرہے ہیں۔بنتابولا ماں جی اگر میں انہیں پسند نہ آیا تو،بے بے بولی پْت پسند تو تْو ہمیں بھی نہیں پر تجھے گھروں تے نہیں کڈ سکتے۔پی ٹی وی ایسا نکھٹو پتر ہے کہ قوم کا پیسہ کھاتا ہے اور ہڈحرام تیلاتوڑ کے نہیں دیتا۔قومی دولت کو کوریڈوروں میں اچھال اچھال کے اپنوں کو پکارتا ہے والو کڑیو ونڈی دی شے لے جاؤ۔ارطغرل پہ اتراتا ہے قرض کی مے پیتا ہے اور اپنی فاقہ مستی ہے ڈھٹائی سے ٹھمکے لگاتا ہے۔ذہین اتنا ہے کہ قوم اربوں کھربوں کھا کے ایک ارطغرل جیسا ڈرامہ پروڈیوس نہیں کرپاتا۔اور تو اور یوٹیوب چینل بھی بند کرا بیٹھتا ہے۔اور وزیر اعظم کو دھوکہ دیتا ہے کہ اس نے قومی بیانئیے کا آسمان سر پہ اٹھارکھا ہے۔شبلی فراز ایک تو سوہنے ہیں اوپر سے ستّے پئے اٹھے یعنی ایک تو وفاقی وزیر ہیں پھر احمد فراز جیسے لیجنڈ کے صاحبزادے، اور ہمارا عالم یہ ہے کہ اس بڑھاپے میں بھی 'جاناں جاناں 'کو دل سے لگائے بیٹھے ہیں،پہلے پیار کو احمد فراز کا بھیجا پہلا شعر کیسے بھولوں۔ہمیں امید ہے وہ باپ کی طرح کھرے سچے انسان ہیں انکی ناک تلے یہ ٹوپی ڈرامہ مزید نہیں چلے گا۔پی ٹی وی کو قومی بیانئیے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور یہ تب ہی ہوگا جب اس میں اشرافیہ کی بجائیجینؤن فنکار بیٹھیں گے جن کے ماضی کے فن پاروں کی آج بھی دنیا میں دھوم ہے۔شبلی مایوس نہیں کریں گے۔