لاک ڈاؤن نہیں تو متبادل پالیسی دیں
پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ کورونا وائرس ختم نہیں ہو رہا اِس میں شدت آ رہی ہے، مریضوں اور اموات میں بھی خطرناک حد تک ضافہ ہو رہا ہے،اِس کے باوجود عوام کورونا کو سنجیدہ لینے پر تیار نہیں،اگر حالات یہی رہے تو پاکستان کا صحت کا نظام اس کو برداشت نہیں کر سکے گا…… ایک جانب گورنر کی یہ تشویش ہے اور دوسری طرف ڈاکٹر اور طبی عملہ بھی تیزی سے متاثر ہو رہا ہے ایک ہی دن میں چار ڈاکٹر جاں بحق ہو گئے، ڈاکٹروں کی ایک تنظیم کے مطابق لاہور کے جنرل ہسپتال میں چار سو ڈاکٹروں کے ٹیسٹ کئے گئے جن میں سے سو کے قریب متاثر ہیں،ہسپتالوں میں مریضوں کو بیڈ نہیں مل رہے، ڈاکٹروں نے او پی ڈی (شعبہ بیرونی مریضاں) کھولنے کی مخالفت کی۔
یہ تو درست ہے کہ عوام کورونا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے،لیکن بعض ایسے فیصلے بھی کئے جا رہے ہیں جن سے معیشت کا پہیہ چلنے میں تو شاید مدد ملے تو ملے،لیکن کورونا کا پھیلاؤ روکنا ممکن نہیں۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد اب غیر ملکی پروازوں کو پاکستان میں لینڈنگ کی اجازت دے دی گئی ہے،ریل گاڑیوں کے آپریشن میں وسعت لائی جا رہی ہے، پنجاب این سی او سی کے اجلاس میں پارکس، ریستوران اور مزید صنعتیں کھولنے کی سفارش کا فیصلہ بھی کیا گیا، ایسے میں قدرتی طور پر یہ سوال تو اٹھایا جا سکتا ہے کہ عوام کی غیر ذمہ داری اور لاپروائی تو اپنی جگہ،لیکن کیا ایسے فیصلوں کے نتیجے میں کورونا پھیلے گا یا نہیں؟ اور کیا عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور کرنے کی کوئی سبیل بھی کی جائے گی؟ اِس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اس کے عواقب پر نظر ڈال لی جائے، بہتر ہے اِس ضمن میں ڈاکٹروں کی رائے کو اولیت دی جائے جو نہ صرف اس محاذ پر صف ِ اول پر ہیں،بلکہ ڈاکٹروں کے متاثر ہونے کی شرح میں بھی تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے، بڑے ہسپتالوں کے پورے پورے وارڈ اور انسٹیٹیوٹ بند کرنے پڑ رہے ہیں ایسے میں ینگ ڈاکٹروں نے ایک بار پھر ہڑتال کی دھمکی بھی دے دی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب میں ایم ٹی آئی ایکٹ کا نفاذ روک دیا جائے، حکومت بظاہر یہ مطالبہ تسلیم کرنے کے حق میں نہیں، چند ہفتے پہلے بھی ڈاکٹر دھرنا دے چکے،لیکن لگتا ہے مطالبات کرنے اور ماننے والوں کے پرنالے ابھی تک اپنی اپنی جگہ پرقائم ہیں۔کیا لاک ڈاؤن میں نرمی کی وجہ سے نئے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے اور واقعتا ایسا ہے تو پھر مزید نرمی کا فیصلہ نظرثانی کا محتاج ہے، صرف مئی کے مہینے میں 42 ہزار نئے مریضوں کا اضافہ ہوا ہے، اپریل کے اختتام تک متاثرین کی تعداد بیس بائیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔
کورونا کے حوالے سے کچھ ایسے فیصلے بھی کئے گئے جو اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ اب سے پہلے یہ ہوتا رہا ہے کہ کورونا کے باعث جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو میت کی تدفین کے سلسلے میں بعض پابندیوں کا مکلف بنا دیا گیا،ایسا اس خدشے کے پیش ِ نظر کیا گیا کہ کورونا کا وائرس مردہ جسم سے زندہ انسانوں میں منتقل ہو جاتا ہے، نیا فیصلہ یہ آیا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا،اِس لئے احتیاطی تدابیر کے ساتھ میتوں کو غسل دیا جا سکتا ہے اور مریض کے عزیز رشتہ دار جنازے میں شریک بھی ہو سکتے ہیں،اس سے پہلے غالباً احتیاطی طور پر یا کسی خوف کے پیش ِ نظر بھی سخت ضابطے نافذ کر دیئے گئے تھے، دُنیا بھر میں مرض کے حوالے سے نئے حقائق سامنے آنے پر ایڈوائزری بھی تبدیل ہو رہی ہے،تازہ ریسرچ یہ سامنے آئی ہے کہ جو ایک بار متاثر ہو جاتا ہے، صحت یابی کے بعد وائرس اس پر دوسری مرتبہ حملہ آور نہیں ہو سکتا،اسی طرح ایک وفاقی وزیر نے جو ہر فن مولا ہیں،ایک بیان میں کہا تھا کہ گیارہ سال تک بچے وائرس کا شکار نہیں ہوتے، لیکن اس سے کم عمر کے بچوں میں بھی وائرس کی موجودگی ثابت ہو چکی اور بچوں کی اموات بھی واقع ہو چکیں، دُنیا بھر میں زیادہ تر ستر سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لئے وائرس مہلک ثابت ہوا، لیکن پاکستان میں اچھے خاصے صحت مند ڈاکٹر اس کا شکار ہو گئے اور حیران کن حد تک کئی بوڑھے مریض صحت یاب ہوتے دیکھے گئے ان سب اعداد و شمار سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمیں اپنے حالات کے مطابق اقدامات کی ضرورت ہے،ضروری نہیں مغربی ممالک میں جو فارمولے درست ثابت ہوئے وہ یہاں بھی ہوبہو نتائج دیں، مرنے والوں کی عمروں کا جائزہ لے کر دیکھا جا سکتا ہے کہ چالیس سال یا اس سے کم عمر لوگ بھی نہ صرف متاثر ہوئے،بلکہ جاں بحق ہو گئے،اِس لئے کوئی بھی نئی پالیسی بنانے سے پہلے ان تمام امور کا دِقت ِ نظر سے جائزہ لینا ضروری ہے، نئی یا پرانی ادویات کے تجربات میں بھی حزم و احتیاط کا لحاظ رکھنا چاہئے، بعض داؤں کے حسب ِ توقع نتائج نہیں نکلے۔
ہمارے ہاں حکومتی حلقوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ کورونا کے پھیلاؤ کا ذمے دار تو عوام کی بے احتیاطی کو قرار دے رہے ہیں،لیکن خود حکومتی پالیسیوں کے نتائج پر غور نہیں فرماتے، وفاقی حکومت لاک ڈاؤن کے مضر اثرات سے مسلسل عوام کو آگاہ کرتی رہی او کہا گیا کہ کورونا سے اتنے لوگ نہیں مرے جتنے بھوک سے مر جائیں گے،لیکن آج تک کسی اِکا دُکا واقعے کے سوا کوئی ایسی اطلاع نہیں آئی کہ لوگ بڑی تعداد میں بھوک سے مر گئے ہوں کیا کسی ادارے نے اعداد و شمار جمع کئے کہ بھوک سے کتنی اموات ہوئیں؟یہ محض خوف کی ایک علامت ضرور رہی،لیکن کورونا سے اموات تو بڑھ رہی ہیں، اِس لئے لاک ڈاؤن کے خلاف دلائل کا انبار لگانے والوں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ متبادل پالیسی بھی دیں یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن جاری رہا تو لوگ بھوک سے مر جائیں گے، دو ڈھائی ماہ کے لاک ڈاؤن میں ایسا نہیں ہوا یہ البتہ ضرور ہوا ہے کہ لوگوں کی معاشی مشکلات بڑھ گئیں،لیکن لوگوں نے اپنی بھوک مٹانے کا بندوست بھی کسی نہ کسی طرح کر ہی لیا،حکومت نے محدود تعداد میں لوگوں کی مدد بھی کی،لیکن سب لوگ تو اس سے مستفید نہیں ہوئے،انہوں نے اپنی اور اپنے خاندانوں کی بھوک مٹانے کے لئے اپنی ہی مساعی پر انحصار کیا۔
لاک ڈاؤن کے بارے میں وفاقی حکومت کی پالیسی سے سندھ نے اتفاق نہیں کیا اور صوبائی حکومت اس بات پر زور دیتی رہی کہ اگر چند روز کی مشکلات برداشت کر لی جائیں تو ان کے بہتر نتائج نکل سکتے ہیں،لیکن وفاقی حکومت اور سندھ میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس پالیسی کو ہدفِ تنقید بناتی رہیں،سندھ میں تحریک انصاف نے تو گورنر راج کا مطالبہ بھی داغ دیا۔ یہ غالباً وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کا جواب تھا،پھر اس پر اصرار کے لئے بار بار بیانات بھی دیئے گئے،سندھ میں اگر یہ شکایت رہی کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی تو اپوزیشن جماعتیں وفاقی حکومت پر بھی ملتے جلتے الزامات لگاتی رہی ہیں، حالانکہ مل کر یکساں پالیسی اپنائی جاتی تو بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی تھی، لیکن ایسا کہیں نظر نہیں آیا، لاک ڈاؤن کے بارے میں جس کے جو خیالات تھے وہ اُنہیں ہی حرفِ آخر سمجھ کر ان پر مصر رہا، ایسے میں کورونا پھیلتا رہا اور اب ریکارڈ اعداد و شمار نے خوف و ہراس کے سائے گہرے کر دیئے ہیں تو یہ رونا رویا جا رہا ہے کہ عوام احتیاط نہیں کر رہے،حکومت کو اس صورتِ حال سے نکل کر عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔