تارا پاکا گاؤں
بڑھیا بڑے تحمل سے پرسکون لہجے میں بات کر رہی تھی۔ پانچ صدیاں پہلے ہسپانوی فاتحین کے ہاتھوں بسنے والے اس گاؤں میں رہنے کے لئے ذریعہ آمدن ہونا ضروری ہے۔ آمدنی کا یہ ذریعہ مستقل ہونا چاہئے، کیونکہ اس دور افتادہ گاؤں میں تو کوئی کاروباری مواقع موجود نہیں ہیں۔ اپنے بڈھے شوہر کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی، جیسے ہم دونوں کا مستقل ذریعہ آمدن موجود ہے۔ہمیں سرکار کی طرف سے پینشن آتی ہے۔ مہر بان بزرگ خاتون نے تارا پاکا کے ساتھ اپنی وابستگی کے بار ے میں بتایا کہ یہاں زندگی بہت پرسکون ہے۔ میرے سوال کے جواب میں شوخی سے کہنے لگی کہ میں تو جدی پشتی شہری ہوں، میرا یہ محبوب مگر پینڈو ہے۔اسی کی محبت میں نصف صدی پیشتر اس نخلستان میں آ کر بس گئی،اور پھر یہیں کی ہو کر رہ گئی۔یہ بتاتے ہوئے بڑھیا نے پیار سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور اس کا ہا تھ تھام لیا۔
لق و دق صحرا کے بیچ اس نخلستان میں دوسو کے قریب گھر ہوں گے۔ مبالغہ آرائی سے بھی کام لیں تو تین سو مکانا ت نہیں ہوں گے۔ چلی کا مجموعی رقبہ پاکستان سے ملتا جلتا ہے۔ جغرافیائی تقسیم اس پٹی نما ملک کی یوں کی گئی ہے کہ اس پٹی کو 13 ریجن یا انتظامی یونٹ بنا کر الگ الگ شناخت دی گئی ہے۔ چلی کا پہلا ریجن اسی ہسپانوی طرزِ تعمیر کے شاہکا ر چھو ٹے سے گاؤں کی نسبت سے ”تاراپاکا“ کہلاتا ہے۔سینکڑوں مربع میل رقبے پر پھیلے ملک کے شمال میں واقع اس خطے کی سرحدیں پیرو اور بولیویا کے ساتھ ملتی ہیں۔ ملک کی اہم ترین بندرگا ہیں اس خطے میں پائی جاتی ہیں۔دو بڑے شہر اریکا اور اقیقیٰ اس ریجن میں پائے جاتے ہیں، جن میں پاکستانیوں کی قابل ِ ذکر تعداد موجو د ہے، سبھی کا روباری لو گ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ”تارا پاکا“ ٹیکس فری زون ہے۔ مرکز سے دوری کے سبب اس علا قے کو خصو صی رعایت دی گئی ہے۔ٹیکس فری زون ہونے کے سبب یہاں کثیر تعداد میں غیر ملکی آباد ہیں،جو تقریباً سبھی کاروباری لوگ ہیں۔ پاکستانی زیادہ تر گاڑیو ں کے کاروبار سے متعلق ہیں،مسلمان تو یہاں ترک،ایرانی اور عرب بھی ہیں، مگر یہ سعادت پاکستانیوں کو نصیب ہوئی کہ انہوں نے یہاں پرشکوہ مساجد تعمیر کی ہیں جو سبھی آباد ہیں۔
بڑے بڑے ملکو ں کے بڑے بڑے شہروں کی بڑی بڑی باتیں تو آپ سنتے اور پڑھتے ہی رہتے ہیں،مگر لاطینی امریکہ کے چلی میں ہسپانوی نو آبادیاتی عہد کا یہ گاؤں آپ کو شاید انٹرنیٹ پر بھی نہیں ملے گا، چونکہ یہ بستی بہت ہی دور افتادہ اور تنہا ہے، تاراپاکا جیسے مقامات دریافت کرنا مجھے بے حد پسند ہے،جہاں تک رسائی مشکل ہو اور کم کم سیاح ہی اس طرف کا رخ کر تے ہوں۔ نخلستان میں بسے اس گاؤں جا نے کے لئے مجھے دو چیزوں نے متحرک کیا، ان میں پہلی تو طرزِ تعمیر اور آثار قدیمہ تھے۔ یہ گاؤں چونکہ سپین سے آئے عیسائی مبلغین اور فاتحین نے بسایا تھا اس لئے قدیم ہسپانوی طرزِ تعمیر یہاں بے حد نمایاں ہے۔ سیلاب زدہ قدیم آثا رکے علاوہ کہنہ کلیسا جو کہ عیسائی صوفی بزرگ سینٹ لو رانسو کے نام سے منسوب ہے،پوری شان کے ساتھ کئی صدیوں سے ایستادہ ہے۔دوسری وجہ جس نے اس سفر کی ترغیب دی وہ یہاں کا پانچ صدیاں پرانا قبرستان ہے۔پرانے کتبے، تعویز قبر اور لوح مزار بہت ساری کہانیا ں بیا ن کرتے ہیں۔
اس گاؤں کی کوئی خاص معیشت نہیں ہے،مگر ہریالی کے سبب کچھ لوگ یہاں مویشی پال لیتے ہیں اور پھر پروان چڑھا کر انہیں فروخت کر کے کچھ منافع کما لیتے ہیں آمدن کا دوسرا ذریعہ عیسا ئی بزرگ سان لو رانسو کی درگا ہ سے وابستہ چھو ٹے، بڑے ٹھیلے،چھابے، ڈھابے ہیں،جو کیتھولک عقیدے کے بزرگ کے کلیسا پر حاضری کے لئے آنے والے زائرین کو روزمرہ کی بنیادی ضروری اشیاء اور سامان خوردو نوش فروخت کرتے ہیں۔ البتہ سا لانہ مذہبی تقریبات یا برسی کے مو قع پر صورتِ حال چند دن کے لئے یکسر بدل جاتی ہے۔ جنگل میں منگل کا مقولہ یہاں بالکل صادق آتا ہے۔گزشتہ برسوں میں سالانہ میلے کے مو قع پر تقریباً ایک لاکھ معتقدین ملک کے طول و عرض سے اس مزار پر حاضری دینے کے لئے جمع ہو تے ہیں۔ گاؤں کے مقامی لوگو ں کی چاندی ہو جاتی ہے کہ وہ فائیو سٹار ہوٹل کے نرخوں پر مہمانوں کو اپنے گھروں میں ٹھہراتے ہیں۔ کچھ نے فقط سالانہ میلے کے دنوں کے لئے یہا ں مکان خرید چھوڑے ہیں، جو باقی تمام سال خالی رہتے ہیں۔ میلے کے دوران مذہبی مناجات ہوتی ہیں۔روحانی موسیقی بجائی جاتی ہے اور صوفی رقص پیش کیا جاتا ہے۔
تارا پاکا گاؤں میں داخل ہوتے ہی آثار قدیمہ نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نیم منہدم مکان، سرائے، کہنہ بازار، مگر خو بصورتی یہ ہے کہ اس سارے منظر کا رنگ، ڈھنگ با لکل ہسپانوی ہے، لگتا ہے میڈرڈیا قرطبہ کے کسی نواحی گاؤں میں آ نکلے ہیں۔ چلی کے ہزاروں کلو میٹرپر پھیلے شمالی علا قہ جات کا یہ سب سے زرخیز قطعہ اراضی کہلاتا ہے، گرچہ اس کا رقبہ انتہا ئی مختصر ہے۔ یہاں پہنچ کر پہلا خیال تو یہ آیا کہ آج سے پانچ سو سال پہلے ہسپانوی فوجی یہاں پہنچے کیسے؟ اس وقت تو ہوائی جہاز اور موٹر گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں۔ منطقی سی بات لگتی ہے کہ بحری جہازوں سے آئے تھے۔ پھر ذہن میں خیال آیا کہ قریب ترین بندرگاہ بھی یہاں سے سو میل دور ہے۔بھلا ہسپانوی اس بیابان میں لینے کیا آئے تھے؟ بہت سا رے انسانی ارتقاء کے متعلق ایسے سوالات کے جوابات ایسی جگہوں پر جاکر ملتے ہیں۔ یہاں انسانی بستی بسنے کی وجہ تو صحرا میں سبزے کا واحد ٹکڑا ہو نا سمجھ میں آ جاتا ہے، اس گلستان میں آ کر مگر یہ بھی گرہ کھلتی ہے کہ ماضی میں انسانوں کی زندگی کتنی سا دہ اور ضرورتیں کتنی محدود ہوتی تھیں۔ فقط کھانا اور پانی، یہ دو چیزیں جہاں میسر آ جاتیں تو لوگ خوشی خوشی اس جگہ آباد ہو جایا کرتے تھے۔
گاؤں کے وسط میں گرجا گھر کے اردگرد بہت رونق تھی۔اس رونق کا سبب سیاح نہیں تھے،بلکہ دو ر دراز علاقوں سے آئے ہوئے سینٹ لورا نسو کے عقیدت مند حضرات و خواتین تھیں۔ چرچ میں لمبی قطاروں میں لوگ اپنی با ری کا انتظا ر کر رہے تھے۔ زیادہ تر ان میں بیمار و نادار لو گ ہی تھے جو اپنی صحت یابی و شفا پانے کے لئے حاضری بھرنے آئے تھے۔ کلیسا کے با ہر لنگر تقسیم ہو رہا تھا۔ یہاں پر بھی لمبی قطاریں، تھیں مگر دھکم پیل بالکل نہیں تھی۔ نیا ز میں مچھلی سے تیار کردہ ”سبیچے“ تقسیم ہو رہے تھے۔ یہ پیرو کا قومی کھانا بھی ہے۔ کچی مچھلی کو تا زہ لیموں کے رس میں لمبا عرصہ بھگونے کے بعد اس میں پیاز کی قاشیں اور دھنیا ڈال کر تیا ر کیا جاتا ہے۔سچ پوچھیں تو یہ انتہائی لذیز کھانا ہے۔
قدیم عمارتوں کو دیکھ کر حیرت ہو تی ہے۔اس لئے بھی کہ گھروں کے لکڑی کے دروازے بالکل اسی ڈیزائن کے ہیں جیسے ہمارے گھروں میں آج بھی چوبی دروازے استعمال ہو تے ہیں۔ایک اور خوبصورت پہلو جس کا ذکر اس گاؤں کے طرزِ تعمیر کے تذکرے میں ضروری ہے، وہ عمارتوں کے محراب ہیں۔گھروں کے برآمدوں میں بھی لکڑی کے محراب بنا ئے گئے ہیں۔ قابل ِ ذکر با ت یہ ہے کہ ان کا ڈیزائن با لکل وہی ہے جو اسلامی آرٹ یا عرب فن تعمیر کاخا صہ ہے۔ یہ قابل ِ فہم با ت ہے کہ عربوں نے سپین پر آٹھ سو سال حکومت کی تھی، جس کا ایک پر تو اور پہلو یہ عمارتی محراب ہیں جو ہسپانیہ اپنے فاتحین جنگجوؤں کے سا تھ یہاں لے آیا تھا۔ گاؤں کے مرکز میں کلیسا کا مینار بھی عرب فن تعمیر کا حصہ لگتا ہے۔اس کلیسا کا ایک حصہ عبادت اور دُعائیہ اجتماع کے لئے مخصو ص ہے، جبکہ دوسرا حصہ میوزیم محسو س ہوتا ہے۔
سان لورانسو سے منسوب اس انتہائی سادہ اور کشادہ چرچ کے میوزیم میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی زندگی کے آخری عشائیے کا منظر پتھر سے بنے مجسمو ں سے مجسم کیا گیا ہے۔یسو ع مسیحعلیہ السلام کے مصلوب ہونے سے بیشتر رات، کھانے کی میز پر،اپنے اصحاب کے ساتھ گفتگو کا منظر، تصویری شکل میں تو بارہا اور بہت ساری پینٹنگز میں قارئین بھی ملاحظہ فرما چکے ہوں گے، مگر مجسم شکل میں،ان تمام اصحاب ِمسیحعلیہ السلام کے نام کے ساتھ میں نے پہلی مرتبہ دیکھا،جس بزرگ کے نام اور دم قدم سے اس کہنہ گاؤں کی رونق ہے وہ سان لو رانسو بھی تبلیغ کی غرض سے سپین سے ہی آئے تھے۔ تارا پا کا گاؤں لاطینی امریکہ میں ہسپانوی نو آبادیاتی عہد کی ایک جیتی جاگتی یادگار تصویر ہے۔