ڈونگرے اور ڈھول
عمران خان حکومت کے تقریباً تین سال پورے ہونے والے ہیں۔ ابھی تک حکومت کی کارکردگی صفر جیسی ہی رہی ہے۔ آدھی سے زیادہ مدت گذر گئی تھی اور لوگوں میں یہ احساس مضبوط ہوتا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی ویژن نہیں اور نہ ہی کوئی پلان اور ٹیم۔ یہ مدت زیادہ تر پچھلی حکومتوں کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہی گذری تھی۔ وہی دلدار پرویز بھٹی مرحوم کا تیس سال پہلے کہا گیا ایک تاریخی فقرہ کہ ”ہر خرابی کی ذمہ دار پچھلی حکومت ہوتی ہے “۔ کسی بھی شعبہ میں کوئی ٹیم سیٹ نہیں ہو رہی تھی۔ تقریباً تمام اہم وزارتوں، ڈویژنوں، اداروں اور عہدوں پر بار بار ادل بدل۔ پنجاب کا حال اور بھی برا تھا، اکھاڑ پچھاڑ مرکز سے بھی زیادہ، کسی سیٹ پر کوئی بیورو کریٹ چند ہفتوں یا مہینوں سے زیادہ ٹکنے نہیں دیا جا رہا تھا، اوپر سے ایک کمزور وزیر اعلی۔گوورننس کا بیڑا غرق تو تھا ہی، ملک کی معیشت بھی آئی ایم ایف کے حوالہ کرنے کے باوجود منفی میں جا رہی تھی۔ بس ایک کرونا کا ہی ”آسرا“ تھا کہ معیشت کی ناکامیوں کو کرونا پر ڈال دیا جائے، حالانکہ 5.8 فیصد کی شرح سے ترقی کرتی معیشت کرونا کے ظہور سے پہلے ہی 1.9 فیصد پر آ چکی تھی (کرونا کے بعد منفی ہو گئی)۔
اپنے اور آئی ایم ایف کے ملا کر چار وزیر خزانہ آ چکے تھے۔ موجودہ سال کی پروجیکشن سرکاری بینک نے 3 فیصد رکھی تھی،جبکہ عالمی مالیاتی بینکوں نے اس سے نصف یا اس سے بھی کم۔اس دوران وزیراعظم عمران خان کی چند تقریروں کے علاوہ خارجہ محاذ پربھی ناکامیاں زیادہ تھیں۔ بھارت نے 5اگست2019ء کو کشمیر با ضابطہ طور پر ہڑپ کر کے اپنے اندر ضم کر لیا تھا اور ہماری حکومت ایک جمعہ کو آدھے گھنٹے کے لئے سڑکوں پر کھڑے ہو نے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکی تھی۔نئے امریکی صدر جو بائیڈن کو وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں بیٹھے چار مہینے گذر چکے تھے، لیکن پہلی بار ہوا تھا کہ چار مہینے گذرنے کے باوجود نئے امریکی صدر نے پاکستانی سربراہ سے رابطہ نہیں کیا، نہ خط پتر اور نہ ٹیلی فون۔ دونوں ملکوں میں جو بھی بات چیت ہوئی، سیکیورٹی ایڈوائزر کی سطح سے اوپر نہیں ہو سکی۔ باقی رہ گئے عوا م تو ان کا برا حال تھا (اور ہے)۔ مہنگائی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑدئیے، دو وقت کی روٹی کمانا مشکل سے مشکل تر ہو گیا،پچاس لاکھ سے زیادہ لوگوں کی نوکریاں ختم ہو گئیں اور اس سے کئی گنا زیادہ لوگ خط غربت کی لکیر کے نیچے سکائی لیب کی طرح گرتے چلے گئے۔ انگریزی میں اس کے لئے freefall کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
پھر اچانک چمتکار ہو گیا۔ کروڑوں لوگ انہی برے حالات میں ایک رات ایسا سوئے کہ صبح جب بیدار ہوئے تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ ہچکولے کھاتی معیشت راتوں رات نہ صرف ٹھیک ہو گئی بلکہ تقریبا ً 4فیصد کی شرح سے ترقی کرنے لگی۔ میں نے پچھلے کالم میں اس پر تفصیل سے لکھا تھا کہ کس طرح راتوں رات اعداد و شمار بیورو کو وزارت خزانہ سے نکال کر وزارت منصوبہ بندی میں دیا گیا اور پھر جادوگر کی طرح ہیٹ سے اپنی مرضی کے خرگوش اور کبوتر نکالے گئے۔تاریخ میں پہلی بار اقتصادی ترقی کی شرح کا تعین وزارت خزانہ کی بجائے وزارت منصوبہ بندی نے کیا۔ عمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے مداحوں کو ان کی ہر ادا نہ صرف بھاتی ہے، بلکہ وہ لاکھوں کی تعداد میں سوشل میڈیا پر متحرک بھی ہیں۔ اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر بجائے جانے والے داد و تحسین کے ڈونگرے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ حکومتی خربوزے کا رنگ سٹیٹ بینک کے خربوزے نے بھی پکڑ لیا اور اس نے بھی اپنی 3 فیصد کی پروجیکشن کو 4.8 فیصد میں تبدیل کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اپنی پروجیکشن تبدیل کرتے ہیں یا نہیں، جو بالترتیب ایشین ڈویلپمنٹ بینک 2 فیصد، آئی ایم ایف 1.5 اور ورلڈ بینک 1.3 فیصد ہے۔
پہلے چمتکار کے تین چار دن بعد اس سے بھی بڑا چمتکار ہوا۔ 25 مئی کی شام کو واٹس ایپ گروپوں میں اٹارنی جنرل پاکستان سے منسوب ایک میسج گھومنا شروع ہوا،جس میں بتایا گیا تھا کہ ورجن آئی لینٖڈ کی ہائی کورٹ نے ریکو ڈک کیس کی مدعی ٹیتھیان کاپر کمپنی TCC کی طرف سے چھ ارب ڈالر کے لگ بھگ دعویٰ یا اس کے جز کا فیصلہ پاکستان کے حق میں کر دیا ہے اور پاکستان نہ صرف یہ رقم بچانے میں کامیاب ہو گیا ہے، بلکہ کیس میں اٹیچ ہوئے پی آئی اے کو دو ہوٹل، نیو یارک کا روزویلٹ اور پیرس کاسکرائب، اب اٹیچ نہیں رہے۔ اتنی بڑی خوشخبری کے بعد پاکستان بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس رات کے ٹیلیویژن شوز اور اگلی صبح پاکستان کے تمام اخبارات اس تاریخی ”فتح“ کی خبروں سے بھرے ہوئے تھے۔ مجھے تجسس تھاکہ اتنے اہم اور بڑے کیس (6 ارب ڈالر یا اس کا ضمنی حصہ) کی خبر کسی عالمی میڈیا میں نہیں آئی، اس دن بھی اور اس کے بعد بھی۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ عالمی خبر رساں ایجنسیوں رائٹر، اے پی اور اے ایف پی وغیرہ یا عالمی سطح کے مالیاتی خبریں شائع کرنے والے اخبارات جیسے وال سٹریٹ جرنل اور فنانشیل ٹائمز وغیرہ نے یہ خبر کیوں نہیں دی۔ میرا تجسس بڑھا تو میں نے برٹش ورجن آئی لینڈ کی ہائی کورٹ کی 25 مئی کی کازلسٹ دیکھی تو پتہ چلا اس دن تو یہ کیس لگا ہی نہیں تھا۔ اس کے بعد سے آج تک میں برٹش ورجن آئی لینڈ کی ججمنٹس 25 مئی اور اس کے بعد اور پہلے کی بھی دیکھ رہا ہوں، لیکن اس کیس کی کوئی ججمنٹ موجود ہی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ گھوسٹ ججمنٹ ہے جس کا علم صرف اٹارنی جنرل پاکستان کے دفتر میں قائم International Disputes Unit (IDU) کو ہے اور اس عدالت کو خود بھی نہیں پتہ کہ پاکستان میں کون کون سے ڈ ھول بجائے جا رہے ہیں۔ بات انتہائی سادہ ہے، ڈھائی تین سال کی ناکامیاں پچھلی حکومت پر ڈالنے کا وقت گزر چکا اور اب واحد راستہ یہی بچا ہے کہ ڈونگرے اور ڈھول بجائے جائیں۔ خوش قسمت ہے ایسی حکومت کہ اس کے لئے لاکھوں لوگ سوشل میڈیا پر متحرک ہیں۔