ملن وجدائی کے بدلتے ڈھنگ
یہ بات درست ہے کہ آج کی دنیا ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والے اہم واقعہ کی اطلاع بغیر کسی تاخیر کے کرہ ارض پر ہر جگہ اسی طرح پہنچ جاتی ہے جیسے کسی چھوٹے سے گاؤں میں ہونے والا کوئی بھی واقعہ چھپائے نہیں چھپتا بلکہ فوراً ہی گاؤں کے ہر فرد کے علم میں آ جاتا ہے۔ شاید اسی لیے دنیا کو عالمی گاؤں کہتے ہیں عالمی شہر نہیں کہتے۔ اس حقیقت کے باوجود مشرق اورمغرب کے معاشروں میں زندگی گزارنے کے طریقوں میں اب بھی بہت بڑا فرق ہے اور اب تک دنیا میں کوئی مشترکہ عالمی ثقافت وجود میں نہیں آئی ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال شادی بیاہ کے معاملات ہیں۔ مغرب میں شادی کے معاملے میں والدین کا کردار اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے لیکن یہاں ایسا معاملہ نہیں ہے۔ مشرقی روایات کے مطابق بچوں کے والدین ان کے جیون ساتھی کے انتخاب میں اثر انداز اور معاون تو ہوتے ہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ پچھلے چند سالوں سے جاپان کے بڑے شہروں میں ”شادی میٹنگ“ کی مقبولیت میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔
”شادی میٹنگ“ کے نام سے ہونے والی ان تقریبات میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے والدین اپنے بچوں کے لیے مناسب رشتے تلاش کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ایسی تقریبات کا اہتمام عام طور پر شادی گھر چلانے والی کمپنیاں کرتی ہیں۔ ان رشتے تلاش کرنے کی تقریبات میں اکثریت ان والدین کی ہوتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کی شادی کی عمر ہو چکی ہے لیکن ان کے بچے شادی کرنے کی جلدی میں نہیں ہیں۔ اپنے بچوں کی شادی کی عمر گزرتے دیکھ کر والدین معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ ان تقریبات کا احوال بھی خاصا دلچسپ ہوتا ہے۔ عام طور پر سو کے قریب والدین شریک ہوتے ہیں جن میں سے 50 لڑکوں کی طرف سے اور 50 لڑکیوں کی طرف سے آئے ہوتے ہیں۔ لڑکوں کی نمائندگی عام طور پران کی مائیں کرتی ہیں۔ سب شرکاء اپنے بچوں کی تصاویر اور ان کے متعلق بنیادی معلومات ساتھ لے کر آتے ہیں۔ تقریب کے آغاز میں لڑکے والوں اور لڑکی والوں کو الگ الگ کھڑا کر دیا جاتا ہے اور پھر دونوں اطراف کے والدین گُھل مل جاتے ہیں۔ ہاتھوں میں اپنے بچوں کی تصاویر لیے ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ اور گپ شپ کرتے ہیں۔ تصاویر کا تبادلہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ٹیلی فون نمبر لیتے ہیں اور اس طرح شادی کے متعلق معاملات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
ایسی ہی ایک تقریب میں شریک ایک خاتون بتاتی ہیں کہ جب بچوں کے والدین آپس میں ملتے ہیں تو اس سے ان کو ایک دوسرے کے گھر کے ماحول کا اندازہ ہوتا ہے۔ میں اپنی بیٹی کے لیے رشتے کی تلاش میں آئی تھی جب میں لڑکے کے والدین سے ملی تو مجھے وہ بہت مہذب اور شریف لگے جس سے میں نے اندازہ کیا کہ ان کا بیٹا بھی غالب امکان یہی ہے کہ ان جیسا ہی ہو گا کیونکہ انہی لوگوں نے اس کی تربیت کی ہے۔ اس خاتون کو امید تھی کہ اس کی بیٹی اور ان کا لڑکا ایک دن میاں بیوی ہوں گے۔ رشتوں کی تلاش کے لیے ہونے والی ان تقریبات کے نتائج کافی مثبت ہیں۔ ایسی ہی ایک تقریب کے نتیجے میں رشتہئ ازدواج میں منسلک ہونے والی ایک 37 سالہ خاتون اپنا احوال سناتی ہیں کہ ان کی والدہ کی یہ رائے تھی کہ وہ تیس سال سے پہلے شادی نہ کرے لیکن جب وہ زندگی کی تیس بہاریں دیکھ چکی تو اس کے بعد اس نے محسوس کیا کہ اب اس سے شادی کے خواہش مندوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ تین سال پہلے اس کی ماں نے شادی میٹنگ کی کچھ تقریبات میں شرکت کی جس کے نتیجے میں ایک لڑکا ملا جو کہ اب مذکورہ خاتون کا شوہر ہے۔ اور یہ سارا کچھ چار ماہ کے اندر اندر ہو گیا، گویا چٹ منگنی پٹ بیاہ۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر میں خود لڑکا تلاش کرتی تو ممکن ہی نہ تھا کہ اتنے مختصر عرصے میں اس سے شادی تک بات پہنچتی۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے اس نے کہا کہ شادی میٹنگ کا مطلب یہ ہے کہ لڑکے اورلڑکی دونوں کے خاندان شادی پر آمادہ ہیں اور لڑکا لڑکی بھی ازدواجی زندگی شروع کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ ہماری شادی ہونے سے پہلے ہی ہمارے خاندان ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو چکے تھے۔
ایسی تقریبات کی مقبولیت کی وجہ اور والدین کی بڑھتی ہوئی بے چینی اس لیے قابلِ فہم ہے کہ جاپان میں تیس سال کی عمر سے پہلے شادی کرنے والے افراد کی شرح پچھلے پچیس سالوں میں تین گنا کم ہو گئی ہے۔ وزارتِ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق جاپان میں 30 سال سے زائد عمر کی خواتین میں سے 32% فیصد غیر شادی شدہ ہیں اور مردوں میں یہ شرح 47% فیصد ہے۔
شادی کا ذکر کرتے ہوئے جی تو نہیں چاہتا کہ طلاق کا لفظ لکھا بھی جائے لیکن لفظ تلخ صحیح مگر ایک ناخوشگوار حقیقت تو بہر حال ہے۔ خبر یوں ہے کہ ٹوکیو میں ایک شخص نے دنیا کا پہلا ”طلاق مینشن“ قائم کیا ہے۔ جس میں نا آسودہ جوڑے اپنی شادی ختم کرنے کی تقریب منعقد کرتے ہیں۔ اس انوکھی تقریب کا ماحول بالکل شادی کی طرح ہی ہوتا ہے جس میں شوہر اوربیوی کے دوست رشتہ دار بن سنور کر شریک ہوتے ہیں۔ ہال کو بھی شادی کی طرح ہی سجایا جاتا ہے جس میں شادی شدہ جوڑے طلاق کا اعلان کرتے ہیں اور شادی کی انگوٹھی پر ایک ہتھوڑی سے معمولی سی ضرب لگاتے ہیں۔ ہتھوڑی پر کچھوے کا نشان بنا ہوا ہے۔ کچھوا یہاں تبدیلی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ طلاق مینشن کے مالک ہیروکی نے بتایا کہ پہلے سال کے دوران اس کے طلاق مینشن میں 25 جوڑوں نے علیٰحدگی کی تقریبات کا انعقاد کیا اور وہ فی جوڑا پچاس ہزار روپے وصول کر رہا ہے۔ اس کا یہ مینشن اتنا مقبول ہوا ہے کہ 9 ہزار افراد نے طلاق مینشن کے متعلق معلومات حاصل کی ہیں۔ اس منفرد مینشن کے قیام کی وجہ بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ طلاق کے لیے تقریب کے اہتمام کا بنیادی خیال یہ تھا کہ اس سے علیٰحدگی اختیار کرنے والا جوڑا اپنے فیصلے کو خوشی کا رنگ دے سکتا ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عالمی مالیاتی بحران نے یہاں کے لوگوں کی ازدواجی زندگی پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور صرف گزشتہ برس ڈھائی لاکھ سے زیادہ شادی شدہ جوڑوں کے درمیان طلاق ہوئی ہے۔