سیاست کے کھیل کو قبائلی جنگ نہ بنائیں!!
خیال تھا کہ عمران خان کے آزادی مارچ کے بعد ملکی سیاست کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے گا۔ مگر وہی ہے چال بے ڈھنگی، جو پہلے تھی سو اب بھی ہے والا معاملہ لگ رہا ہے وہی جلسے پہ جلسہ چل رہا ہے۔ تقریریں ہیں۔ جذباتی نعرے ہیں۔ ایک دوسرے کی بھد اڑائی جاری ہے۔ اگر سیاستدانوں کی تقاریر پر یقین کر لیا جائے تو اس ملک میں شائد ہی کوئی محب وطن ہو سب ہی ملک دشمن، سب ہی ایک دوسرے کی نظر میں غدار ہیں۔ پھر بھی چلی جا رہی خدا کے سہارے۔ والا منظر ہے۔ عوام پر ایک اور پٹرول بم گر گیا ہے۔ اب مہنگائی کا ایک نیا جھکڑ چلے گا۔؟؟؟؟؟ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی ذمہ داری موجودہ حکومت قبول کرتی ہے۔ سابقہ اعلان کرنے والی موجودہ حکومت سابقہ حکومت کے دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ ثبوت کے طور پر سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی آئی ایم ایف اجلاس سے واپسی پر ہونے والی پریس کانفرنس کی ریکارڈنگ چلائی جا رہی ہے۔ ذمہ دار کوئی بھی ہو مہنگائی بلکہ مزید مہنگائی کو بھگتنا تو عوام نے ہے۔ لیکن سچ پوچھیں تو ہماری نظر میں اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ سیاسی بنیادوں پر قوم کی تقسیم کے بعد انتظامی بنیادوں پر ملک تقسیم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس کے مظاہر آزادی مارچ کے دوران اور اس کے بعد نمایاں تر ہو گئے ہیں۔ مارچ کے دوران یہ تاثر ابھرا ہے کہ تین اکائیوں، صوبہ خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کی طرف سے وفاق پر چڑھائی کی گئی۔ ان تینوں کی حکومتیں پی ٹی آئی کے پاس ہیں۔ وہاں سے بلا روک ٹوک جلوس اسلام آباد کی جانب بڑھتے چلے آئے۔ بعض شواہد کے مطابق سرکاری مشینری اور پولیس فورس نے ان جلوسوں کی رونق بڑھائی۔ سہولیات فراہم کیں۔ پھر جب پنجاب کا علاقہ آیا تو اسے جلوسوں کے لئے ”نو گو ایریا بنا دیا گیا“ لاٹھی چارج، آنسو گیس اور بھاری بھرکم رکاوٹوں سے ان کا استقبال کیا گیا پنجاب میں ”ثنا اللہ“ ڈاکٹرائن چلی۔ لاہور کی سڑکیں کئی گھنٹے میدان جنگ بنی رہیں جلوسوں کو عازم اسلام آباد ہونے ہی نہیں دیا گیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور کی روایت کے مطابق ہجوم نہیں نکلا۔ جنوبی پنجاب میں تو ویسے ہی ”دم نہ کشیدن“ والا حال تھا۔ سکون تھا لگتا ہے تحریک انصاف کی حکمت عملی ایک بار پھر ناکام رہی۔ فعال رہنما اور ارکان اسمبلی اس خوف سے دو دن پہلے ہی وفاقی دارالحکومت چلے گئے کہ اس روز راستے بند ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی چوک میں تو ساری رات رونق لگی رہی مگر جنوبی پنجاب میں کوئی مظاہرہ نہ ہو سکا نہ کوئی جلوس روانہ ہو سکا۔ اسلام آباد کے بعد کراچی میں لوگوں نے قابل ذکر احتجاج کیا لگ رہا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ پنجاب کے ”مدارالمہام“ کا کردار ادا کر رہے ہیں جن کا دائرہ اختیار اٹک کے پل سے صادق آباد تک محدود تھا۔ راولپنڈی میں شیخ رشید نے لال حویلی کے سامنے تو سرگرمی دکھائی مگر وہ بھی عمران خان کے ٹرک تک نہ پہنچ سکے۔ سیاسی طور پر تو پہلے ہی مختلف صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں ہیں۔ اسے جمہوریت کا حسن اور آئین کی بالا دستی کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر لانگ مارچ کے دوران اور اس کے بعد تو یوں لگ رہا ہے کہ وفاق کی اکائیاں انتظامی طور پر خود مختار خطے بن رہے ہیں۔ عمران خان اپنے گھر میانوالی آ سکتے ہیں نہ ڈپٹی چیئرمین شاہ محمود قریشی انپے گھر ملتان آ رہے ہیں۔ عمران خان خیبرپختونخوا کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں۔ جہاں ان کی جماعت کی صوبائی حکومت ہے اور جہاں انہیں گرفتاری کا کوئی خطرہ نہیں۔
اسی طرح شاہ محمود قریشی اسلام آباد کے ایک محفوظ مقام میں رہائش پذیر ہیں۔ تحریک انصاف کے بیشتر رہنماؤں کے خلاف پنجاب میں بدامنی اور لاقانونیت کے الزامات کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں اس لئے انہیں گرفتاریوں کا خطرہ ہے اور غالباً ابھی پی ٹی آئی کی پالیسی گرفتاریاں دینے کی نہیں۔ اگر ”چھ دن بعد“ والے مرحلے میں احتجاجی تحریک چل پڑتی ہے تو جیل بھرو کا مرحلہ بھی آ سکتا ہے۔ پھر ماضی کے جیالوں، جن کی بڑی تعداد اب پی ٹی آئی میں ہے کی طرح ہار پہن کر نعرے لگاتے اور پرچم لہراتے ہوئے متوالے چوکوں چوراہوں پر گرفتاریاں پیش کرتے نظر آئیں گے۔ (شاید) پھر دیکھیں رانا ثناء اللہ کیا کرتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ان کی حکومت تو بچ گئی۔ مگر کیا ساکھ بچا پائے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اب وزیر اعظم شہباز شریف ان کے صاحبزادے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور بھتیجی، سینئر نائب صدر مسلم لیگ ن مریم نواز میدان میں ہیں۔ دھڑا دھڑ جلسے کر رہے ہیں ان کے جلسوں میں عوام کی کثیر تعداد شریک ہو رہی ہے۔ بہاولپور اور نوشہرہ میں شریف فیملی نے دھواں دھار رنگ جمایا، چار سدہ میں کپتان نے اپنے کارکنوں کا خون گرمایا اور ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کے لئے تیار رہنے کا درس دیا۔ سیاست کو تو کھیل ہی حکومت کے حصول اور پھر اس کے دوام کی کوششوں کا ہے۔ لیکن یہ بھی تو نگاہ میں رہے کہ ملک اول ہے ملک ایک رہے گا تو حکومت بھی سجے گی۔ اگر حکومت بٹ بٹ کر راجواڑہ ”بن جائے تو عظیم مغلیہ سلطنت بھی زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ دیکھنا حکومت کے چکر میں مملکت کا نقصان نہ ہو جائے۔ سیاست کے کھیل کو قبائلی جنگ کی شکل دیدی جائے تو ملک تعمیر کی پٹڑی سے اتر کر تخریب کے گڑھے میں گر جاتا ہے قیادت کے ہر دعویدار کو یہ حقیقت پیش نظر رکھنا ہو گی۔
ورنہ داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں