184(3) کے فیصلوں پر نظرثانی کا حق
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ2023ء کی توثیق کر دی ہے اور اِس کے نفاذ کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ایکٹ کے مطابق آرٹیکل184(3) کے فیصلے پر نظرثانی کا دائرہ کار آرٹیکل 185 کے مطابق ہو گا۔نظرثانی کے نئے قانون کے نفاذ کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف اور پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین سمیت ماضی میں 184(3) کے فیصلوں سے متاثر ہونے والے دیگر افراد بھی 60دن کے اندر اندر فیصلوں کے خلاف اپیل نما نظرثانی کی درخواست دائر کر سکیں گے۔چیف جسٹس عطاء محمد بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نظرثانی کا نیا قانون نافذ ہونے پر پنجاب میں عام انتخابات کے بارے میں عدالتی فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہے۔سماعت شروع ہونے پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ صدرِ مملکت نے سپریم کورٹ نظرثانی بل پر دستخط کر دیئے ہیں جس کے بعد یہ قانون بن چکا ہے،باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد اِس کااطلاق بھی جمعتہ المبارک سے ہو چکا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریویو ایکٹ کے تحت اب فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ نظرثانی اپیل کی سماعت کرے گا اور نئے ایکٹ کے تحت نظرثانی کا دائرہ اختیار اپیل جیسا ہی ہو گا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ اِس قانون سے صرف میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین ہی کو فائدہ نہیں ہو گا بلکہ ہر متاثرہ استفادہ کر سکے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ اِس قانون کے تحت اُن افراد کو نظرثانی کا حق حاصل ہو جائے گا جن کے خلاف اِس قانون کے نافذ العمل ہونے سے پہلے 184(3) کے تحت فیصلہ سنایا گیا تھا۔ماضی میں سپریم کورٹ کے184(3) کے تحت کیے گئے فیصلوں کے حوالے سے مختلف حلقوں میں یہ بات زیر بحث رہی ہے کہ دنیا کی ہر عدالت اپنے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیتی ہے لیکن ہمارے ہاں اِس آرٹیکل کے تحت ہونے والے فیصلوں پر اپیل کا حق موجود نہیں ہے کہ انفرادی امور میں براہ راست فیصلہ کرنے کا حق سپریم کورٹ کو کسی قانون نہیں بلکہ اس نے اسے ازخود حاصل کر لیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے سربراہ نواز شریف کے خلاف براہ راست درخواست پرفیصلہ سناتے ہوئے اُنہیں تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا جس کے بعد انہیں وزارت عظمیٰ چھوڑنا پڑی تھی۔اِس فیصلے کے بعد سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کو بھی15 دسمبر2017ء کو نااہل قرار دیا تھا۔ماضی میں جسٹس افتخار محمد چودھری اور جسٹس ثاقب نثار نے بڑی تعداد میں ازخود نوٹس لیے اور مذکورہ شق کے تحت کیے گئے فیصلوں پر نظرثانی کا حق نہ ہونے پر متاثرہ افراد بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے۔واضح رہے کہ دنیا بھر میں ایسا قانون جس میں نظرثانی یا اپیل کا حق نہ ہو وہ ”کالا قانون“ کہلاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے ویسے تو فردِ واحد کی جانب سے ازخود نوٹس لیے جانے کے اختیار پر بھی پارلیمنٹ میں قانون سازی کر لی تھی اور ازخود نوٹس بینچوں کی تشکیل کا کام تنہاء چیف جسٹس کے بجائے سینئر ججوں پر مشتمل تین رکنی بینچ کو کرنا تھا تاہم سپریم کورٹ نے اِس قانون پر عملدرآمد روک دیا تھا۔
نئے قانون کے نفاذ سے قبل184(3) کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہ ہونے کے سبب نواز شریف اور جہانگیر ترین سمیت درجنوں افراد متاثر ہوئے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ اگر بھارتی جاسوس اور پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق دینے کے لیے انٹرنیشنل کورٹ ان جسٹس کی ہدایت پر قانون سازی کی جا سکتی ہے، تو پاکستان کو اِس حق سے محروم کیسے رکھا جا سکتا ہے۔ فوجداری مقدمات اور بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے بھی پاکستان کا آئین واضح عدالتی طریق کار مہیا کرتا ہے جس کے تحت ملزم کو اپنے دفاع اور فیصلے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہوتا ہے۔پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی تائید رکھنے والے کسی رہنما کو سیاسی عمل سے ہمیشہ کے لیے نکال دینا اور پھر اتنے بڑے فیصلے پر نظرثانی کا حق بھی نہ ہونا دستور کی روح کے منافی عمل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ مذکورہ ایکٹ کے قانون بننے سے اب ہر فرد کو 184(3) کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کا حق حاصل ہو جائے گا اور یہ انصاف کا ایک بنیادی تقاضہ پورا ہو سکے گا۔