قومی سلامتی اور اتفا ق رائے

  قومی سلامتی اور اتفا ق رائے
  قومی سلامتی اور اتفا ق رائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

28 مئی کا دن پاکستان کے وقار اور سلامتی کے سلسلے میں بہت اہم  ہے۔ 1998ء میں اِس دن ہم نے ایٹمی دھماکے کئے اور یوں پاکستان دنیا کے چند ایٹمی ملکوں کی لسٹ میں شامل ہو گیا۔ بدقسمتی سے پڑوسی ملک بھارت سے ہمارے تعلقات بہت کشیدہ رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ پاکستان وجود میں آیا تو اُس وقت دونوں نئے ملکوں کے درمیان تعلقات کافی دوستانہ تھے، پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بنا تو بھارتی نمائندے نے اس پر خوشی کا اظہار کیا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات کی طرح خوشگوار ہوں گے لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ شاید اس کا زیادہ  نقصان پاکستان کو ہوا ہے۔ بھارت رقبے اور آبادی کے حساب سے ایک بڑا ملک تھا اور انہیں اپنی برتری کا احساس تھا لہٰذا اپنا قد کاٹھ بلند کرنے کے لئے بھارت نے 1998ء میں ایٹمی دھماکہ کر دیا۔ اگرچہ اُس کی سلامتی کو کوئی بڑا تھریٹ نہیں تھا۔ اِس کے جواب میں پاکستان کوبھی دھماکے کرنے پڑے۔ ایٹم بم کی تیاری کا عمل تو ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کر دیا تھا۔ شاید انہیں خیال تھا کہ ہم روایتی ہتھیاروں کے ذریعے بھارت جیسے بڑے ہمسائے کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
میں نے 9 جون 2018ء کو ایک کالم لکھا تھا۔ کالم ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے انٹرویو پر مبنی تھا۔ میرے کالم کا عنوان تھا ”ڈاکٹر ثمر مبارک مند سے ایک ملاقات“ لیکن اُس وقت روزنامہ پاکستان کے گروپ ایڈیٹر مرحوم قدرت اللہ چوہدری نے عنوان بدل کر ”ایٹمی دھماکے نوازشریف کا فیصلہ تھا“ کردیا۔ اگرچہ ایٹمی دھماکے، کشمیر اور سی پیک پر قوم میں اتفاق رائے تھااور قومی اتفاق رائے کے ذریعے آپ بہت بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے دور میں احساس ہوا کہ سی پیک اُن کے نزدیک قومی مفاد میں نہیں۔ دھماکوں پر عمومی اتفاق رائے کے باوجود اِس کے کریڈٹ پر کافی اختلافی آوازیں آئیں اور آ رہی ہیں۔ شیخ رشید، گوہر ایوب اور راجہ ظفرالحق اپنے آپ کو فیصلے کا کریڈٹ دیتے ہیں۔ اُس وقت کے سیکرٹری خارجہ راؤ شمشاد کی گفتگو سنیں تو خیال آتا ہے کہ سارا کریڈٹ اُنہی کو جاتا ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں نوازشریف تو دھماکہ کرنا ہی نہیں چاہتے تھے کیونکہ وہ بھارت سے بہت ہمدردی رکھتے تھے اور انہوں نے یہ فیصلہ فوج کے دباؤ پر کیا۔ یہ ہمارا قومی وتیرہ ہے کہ ہم سچ اور انصاف کا ساتھ نہیں دیتے اور پھر اپنی رائے بدلنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔


میں نے یہ سوال ڈاکٹرثمر مبارک مند سے کیا کیونکہ وہ تمام واقعات کے معتبر گواہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف قازقستان کا دورہ مختصر کرکے واپس آئے تو انہوں نے مجھے بلایا۔ انہوں نے پوچھا ڈاکٹرصاحب اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ملاقات میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ وزیراعظم صاحب اگر ہم نے اب ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے ہماری پوزیشن ہمیشہ کیلئے کمزور ہو جائے گی اور بھارت ہم پر غالب رہے گا اس لئے ہمیں دھماکہ ضرور کرنا چاہئے اس پر نوازشریف نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے میرے دل کی بات کی ہے۔ بعد میں ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوا ڈاکٹر صاحب کے مطابق اس میں اکثریت نے دھماکہ کرنے کے حق میں رائے دی البتہ تین سویلین ارکان دھماکہ کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اُن کا نام لینا مناسب نہیں سمجھا۔ اگرچہ وثوق سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن میرے خیال میں وہ سرتاج عزیز اور چوہدری نثار تھے لیکن اُن کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا غالباً اُن کا خیال تھا کہ دھماکے کے نتیجے میں ہم امریکہ اور یورپ کے دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور اقتصادی بحران کا شکار ہو جائیں گے۔ ممتاز جرنلسٹ اور اینکر محترمہ نسیم زہرہ نے ایک بہت اچھی کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے "From kargil to coup" کتاب کی تصنیف کے لئے محترمہ نے بہت ریسرچ کی۔ انہوں نے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ نوازشریف دھماکہ کرنے کے معاملے میں شروع سے واضح ذہن رکھتے تھے تاہم معاملے کی اہمیت کے پیش نظر انہوں نے تمام متعلقہ لوگوں سے مشورہ ضرور کیا جو ضروری تھا۔انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے بھارتی ایٹمی دھماکوں کی خبر سن کر اپنا بیرونی دورہ مختصر کر دیا اور پاکستان میں متعلقہ لوگوں کو پیغام دیا کہ وہ تیاری کریں۔


میں نے جو پہلے ذکر کیا کہ اِس معاملے پر قوم میں اتفاق رائے تھا۔ وہ یوں کہ ایٹم بم بنانے کی تیاری کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی اور اس کام کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم کو پوری آزادی دی۔ انہوں نے اس سلسلے میں رابطے کے لئے ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں ممتاز بیوروکریٹ غلام اسحاق خان، آغا شاہی اور اے جی این قاضی شامل تھے۔ اُن کے بعد ضیاء الحق نے افغانستان پر روسی قبضے کے تناظر میں امریکہ کی مجبوری کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور عملی طور پر ایٹم بمAssemble کروا دیا اور آخر میں قدرت نے دھماکے کے فیصلے کا کریڈٹ نوازشریف کو دیا۔اِس کے لئے نوازشریف نے عالمی دباؤ کا جرأت سے مقابلہ کیاکیونکہ یہ فیصلہ آسان نہ تھا۔فوج نے سارے منصوبے میں بھرپور حصہ ڈالا۔  اب بھی سب متفق ہیں کہ اگر ہم یہ دھماکے اُس وقت نہ کرتے تو پھر کبھی نہ کر سکتے اور ہماری سلامتی خطرے میں رہتی۔
اُس مشکل وقت میں تو ہم نے بحیثیت قوم بھارت کی برتری تسلیم نہیں کی اور ایک انتہائی جرأت مندانہ قدم اُٹھایا اور قومی سلامتی کا بھرپور تحفظ کیا لیکن آج کے حالات میں وطن ِ عزیز ایک ایسے سیاسی اور اقتصادی بحران کا شکار ہے جس سے ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں کاش ہم آج پھر اِس صورتحال سے نکلنے کیلئے ایک دفعہ پھر قومی اتفاق رائے کا مظاہرہ کریں۔

مزید :

رائے -کالم -