یو پی، سی پی، دہلی اور بہارسے آنیوالے مہاجروں کیلئے بالکل مختلف دنیا تھی، کراچی اور حیدرآباد ان کے اکٹھے رہائش پذیر ہونے کیلئے بہترین مقامات بنے

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:123
جب کسی شاعر کی چالیس پچاس غزلیں یا نظمیں مکمل ہو جاتیں تو پھر وہ بھی اپنا دیوان چھپوانے کے چکر میں مسودہ بغل میں دبائے مارامارا پھرنے لگتا۔ اگرقسمت ساتھ دے دیتی تو چھپ بھی جاتا، ورنہ اس کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد گھر کے بچے وہ دیوان ردی والے کو بیچ کر دال سیو یاں کھا لیا کرتے تھے۔
ایسی ہی ادبی نشستیں کالجوں اوریونیورسٹیوں میں بھی ہوتی تھیں، ان میں ملک کی دوسری درس گاہوں سے طلبہء اور طالبات اپنے کلام کے ساتھ شرکت کرتے تھے۔خوب مقابلہ ہوتا اور جیتنے والی ٹیم کو ٹرافی اور نقد انعام بھی دیا جاتا تھا۔
پنجاب یونیورسٹی کی ایک تنو مند طالبہ بھی ایسے ہی ایک مشاعرے میں شریک ہوئیں۔ کراچی میں زیادہ تر اہل زبان اور دھان پان سے لوگ ہی بستے تھے اور وہ دہلی یا لکھنو کی دھلی ہوئی زبان بولا کرتے تھے۔ پنجاب سے آئی ہوئی اس طالبہ کا شین قاف قطعی طور پر درست نہیں تھا۔ مگر اچھے ادب کے راستے میں زبان آڑے نہیں آتی۔اس نے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں اپنے اردو کے کچھ اشعار سنائے جس کو سن کر کچھ لوگ مسکرائے اور چند ایک نے ہوٹنگ کی آڑ میں ان کی ”قابل رشک“صحت پر براہ راست آوازے بھی کسے۔ تاہم جب اس مقابلے کا نتیجہ سامنے آیا تو حیرت انگیز طور پر جج صاحبان نے متفقہ طور پر اس طالبہ کو اول انعام کا حقدار ٹھہرایا اور اس کی شاعری کی بہت توصیف و ثنا ء کی۔اس وقت کے عظیم ججوں نے کسی بھی قسم کے تعصب سے بالا تر ہو کر یقیناًایک بہت ہی اچھا فیصلہ کیا تھا!
کراچی کے مسلم شہری
کراچی ایک کثیر الاقوامی شہر تھا جس میں مختلف قومیتوں اور مذاہب کے شہری رہتے تھے۔مجموعی طور پر پاکستانیت سے ہٹ کر تقریباً ہر قوم کا اپنا مزاج،رہن سہن اور رسم و رواج تھے۔ اس باب میں ہم ہر ایک کی تہذیب و تمدن اور رہن سہن کا جائزہ لیں گے۔
مہاجر
1947ء میں جب ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کراچی کی پُرسکون زندگی میں بھی گویا بھونچال آگیا۔ لاکھوں کی تعداد میں مہاجر ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچے۔ان میں سے کچھ تو سمندر کے راستے یہاں تک پہنچے تھے مگر زیادہ تر لٹے پٹے قافلے ریل گاڑیوں سے اور بہت سارے پیدل ہی اپنی نئی منزل پرآئے۔
شروع میں تو سارے مہاجر پاکستان کے مختلف حصوں میں آکر بسے تھے۔کچھ سکھ کا سانس آیا تو مستقل آبادکاری کے بارے میں سوچا گیا۔ پنجاب کے مہاجر تو پنجاب میں ہی ٹھہر گئے۔ ان کو زبان یا ثقافت کا کوئی مسئلہ نہ تھا، سرحد کے دونوں طرف کی ثقافت اور تہذیب و تمدن ایک جیسا ہی تھا۔پنجاب2حصوں میں تقسیم ہوا تھا اس لیے کچھ تو اپنے عزیز و اقارب کے پاس ٹھہرے جبکہ کچھ مہاجر کیمپوں میں چلے گئے اور جلد ہی اپنے لیے مستقل سکونت ڈھونڈ کر وہاں منتقل ہو گئے۔
یو پی، سی پی، دہلی، بہار یا ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے آنے والے مہاجروں کو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ وہ ایک ایسی جگہ آئے تھے جو ان کے لیے بالکل ہی نئی اورمختلف دنیا تھی۔ ان کی زبان، ثقافت اور رکھ رکھاؤ یکسر مختلف تھا۔ اس لیے ان کی کوششں یہی رہتی تھی کہ اردو بولنے والے زیادہ سے زیادہ مہاجر کسی ایک ہی جگہ آباد ہوجائیں۔ کراچی اور حیدرآباد ان کے اکٹھے رہائش پذیر ہونے کے لیے بہترین مقامات تھے۔
اردوو بولنے والے جو مہاجر بذریعہ ریل گاڑی پنجاب آئے، وہ وہیں مختلف شہروں میں آباد ہوگئے تھے۔ان میں سے کچھ نے تو وہیں مستقل سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا اور باقی لوگوں نے اپنے ان عزیزوں اور رشتے داروں کی قربت میں رہنے کو ترجیح دی جوپہلے سے کراچی میں آن بسے تھے۔ یوں آہستہ آہستہ ایک اورہجرت کا عمل شروع ہوا،اور اس بار اس کا رخ کراچی کی طرف تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)