وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو۔۔۔ لوگوں کو سیدھا کرنے کے لئے کوئی چاہیے،صرف باتیں کافی نہیں، کام بھی کرو، کچھ کرکے دکھاؤ

 وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو۔۔۔ لوگوں کو سیدھا کرنے کے لئے کوئی ...
 وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو۔۔۔ لوگوں کو سیدھا کرنے کے لئے کوئی چاہیے،صرف باتیں کافی نہیں، کام بھی کرو، کچھ کرکے دکھاؤ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: جمیل اطہر قاضی
 قسط:34
وہ 2سال کی بات ہے اس وقت تو مجھے وہ3 شعر بھی یاد نہیں رہے مگر کسی نے یاد دلایا کہ ان میں سے ایک شعر کا صرف ایک ہی مصرعہ پڑھا تھا اور دوسرا آج پڑھنے کا موقع ہے۔ بات یوں ہوئی کہ میں اپنے سامعین سے کہہ رہا تھا کہ آپ نے ملک میں ہر قسم کے معاملے کھڑے کئے کبھی یہ کہ چاول کیوں بنگال میں زیادہ ہوتے ہیں۔ کبھی یہ کہ الیچی یہاں کیوں نہیں ہوتی۔ کبھی یہ کہ قومی زبان کیوں ایک ہی نہ ہو اور وہ وہی ہو جو آپ کی ہے مگر اب تو یہ عالم ہے کہ
”اقبال تیرے عشق نے سب بل دیئے نکال“
 بس اتنا ہی کہنے پایا تھا کہ لوگ اختیار کے باگ اپنے پھیپھڑوں کے سپرد کرکے ہنسنے لگے اور مجھے موقع ہی نہیں دیا کہ دوسرا مصرعہ پڑھوں اور میں کرسی پر بیٹھ گیا اور اس کے بعد کسی نے نہیں پوچھا کہ دوسرا مصرعہ کیا تھا مجھے اس دن معلوم ہوا کہ لاہور کے لوگ کتنے ہوشیار ہیں۔ وہ فوراً سمجھ گئے کہ میں دوسرا مصرعہ کہنے والا ہوں مگر چوں کہ آپ لاہور کی ہوشیاری سے 87  میل دور ہیں۔ میں بتائے دیتا ہوں کہ 
”مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی“
تو اگرچہ یہ سوال مجھے لاہور میں کرنا چاہئے۔ چونکہ وہاں موقعہ نہیں تھا کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ اب جو میں پوچھنے لگا ہوں تو معلوم ہوتا ہے ایک وقت پر3 سوال کھڑے ہوگئے ہیں اور سوال یہ ہے کہ کون سا سوال پہلے کروں کیا پہلے یہ پوچھوں کہ سچ مچ آپ کے بل سارے نکل گئے ہیں۔ یا یونہی بہانہ کرتے ہیں۔ اے برہمنو! اگر برا نہ مانو تو مجھے آپ پر شک ہے کیوں کہ جن کی آپ پرستش کرتے ہیں وہ تو پتھر کی طرح سخت ہیں۔ ان کے بل کیسے نکل سکتے ہیں اور اسی قیاس پر آپ کے نظریئے سخت ہیں یعنی ٹھوس قسم کے جن میں لچک نہیں ہوتی اور ان کے بل نکلیں تو وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ بدل نہیں سکتے۔ اگر آپ اپنے نظریہ میں بحث و اصلاح کی گنجائش رکھیں تو کیا مضائقہ ویسے پتھر بھی تو تراشے جاتے ہیں یا پہلے یہ پوچھوں کہ اگر بل نکلے ہیں تو کیا اس نرم جذبے کے تحت نکلے ہیں جو محبت سے پیدا ہوتا ہے یا خوف و ہراس کی مجبوری سے، میرے ایک درباری کالر میں دھوبی نے نشاستہ بھر دیا تھا۔ جس کو وہ کلف کہتے ہیں۔ درباری کالر سے میری مراد وہ سخت کالر ہے جو ہمیں جون کے مہینے میں بھی پہنایا جاتا ہے تاکہ گردن سیدھی رہے۔ ایک دن مجھے زیادہ تکلیف ہونے لگی تو کالر اتار کر پانی میں بھگو دیا۔ آخر گردن کب تک سیدھی رکھی جائے جب اور سب کچھ ٹیڑھا ہو۔ جیسے عمرِ خیام نے کہا تھا.
”صدکار کنی کہ گردن زدنی است“
یعنی سو کام کرتے ہو جو گردن کاٹنے کے لائق ہوتے ہیں۔ اس نے تو شائد کچھ اور کہا تھا جو ”مے“ کی غلامی کے سلسلے میں تھا۔  
صد کار کنی مے غلام آں را
کیونکہ مے کچھ ”ایسی بری چیز نہیں رہی بشرطیکہ ٹھرانہ ہو اور کلب میں پی جائے مگر بعض شعر لوگوں نے بدل دیئے ہیں۔ القصہ وہ کالر پانی کے زیر اثر بالکل نرم ہوگیا اور میں نے کہا کہ یہ کالر کتنا ہمدرد ہے مگر جب اس پر دوبارہ ہوا لگی تو سوکھ کر پھر اکڑ گیا۔ جب میں یہ سوچتا ہوں کہ آپ کے بل شائد خوف و ہراس کی مجبوری سے نکلے ہوں تو مجھے وہ کالر یاد آتا ہے جو پانی سے نرم ہوگیا تھا مگر جب مجبوری خودکسی مجبوری سے چلی گئی تو اکڑ پھر اکڑ کر واپس آئی یا پہلے یہ پوچھوں کہ آپ کی وہ آرزو ہے یا نہیں کہ کوئی آپ کو سیدھا کرے مگر اس پر میں نے سوچا کہ انسان پر خود بینی کا الزام یونہی لگایا جاتا ہے۔ زیادہ مرتبہ وہ غیر بین ہوا کرتا ہے مثلاً ہر ایک ہم میں سے یہی کہتا ہے کہ ان لوگوں کو سیدھا کرنے کے لئے کوئی چاہئے اور وہ خود اپنے کو ان لوگوں نہیں سمجھتا یہ اقبال ہی نے مان لیا کہ اسے خود سیدھا ہونے کی ضرورت ہے مگر اقبال کتنا سیدھا آدمی ہے جہاں کسی جرم کا اقبال کرنا ہو وہ فوراً کہہ دیتا ہے تاکہ استغاثہ کو جھوٹی شہادت پیش کرنے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ مثلاً ہر موقع پر وہ اسی بات پر اصرار کرتا ہے کہ صرف باتیں کافی نہیں، کام بھی کرو۔ کچھ کرکے دکھاؤ، اسی جگہ میں نے ان لوگوں کا ذکر کیا تھا کہ خود حال مست ہوتے ہیں اور ان کا بھی کیا ہوگا جو مال مست ہوتے ہیں۔ اس مقام پر تو مال مست سے حال مست بہتر ہیں مگر ان دونوں سے بہتر کردار مست ہیں۔ میں تو کار مست کہنے کو تھا مگر کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ موٹر کار کی وجہ سے مستی ہے۔ اقبال نے کہا۔
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملاّ کی شریعت میں فقط مستی گفتار
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
ان دونوں اشعار کے بیچ میں ایک اور شعر بھی ہے جس کو میں اس موقع پر غیر ضروری سمجھتا تھا۔ مگر مجھے اب کچھ شک سا ہونے لگا ہے کہ صاحب ِصدر بھی کہیں شاعر نہ ہوں، اس لئے ان کے فائدے کے لئے وہ بھی سنا دیتا ہوں۔) جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -