کہتی ہے تجھ کو خلق خدا....
ہم اپنے بارے میں بہت عمدہ اور اعلیٰ رائے رکھتے ہیں، مگر کبھی کبھی یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ دوسرے ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ سفر میں انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ پچھلے دنوں کراچی سے دُبئی پہنچا تو ایک اماراتی شخص بھی میری طرح وہیل چیئر مسافر تھا۔ دُبئی ایئر پورٹ پر وہاں موجود ذمہ دار شخص نے اس سے بورڈنگ کارڈ مانگا تو وہ غصے سے بولا کہ پاکستانی عملہ چور ہے اور وہ اسی کے پاس رہ گیا ہے۔ مجھے غصہ بھی آیا اور افسوس بھی کہ اس مجہول شخص کو نہ جانے کس بات کا غصہ ہے کہ اس نے ایک ایسی چوری کا الزام پاکستانی عملے پر لگا دیا ہے، جس کا کوئی فائدہ اس مفروضہ چور کو یقیناً نہ ہوگا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موصوف نے خود ہی اِدھر اُدھر کر دیا ہو۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دُبئی اور خلیج کے دیگر ممالک میں ہم زیادہ تر مزدور، ٹیکسی ڈرائیور، عام مزدوری کرنے والے ہی 80 فیصد سے زیادہ ہیں اور مقامی لوگ انہیں مسکین کہتے ہیں۔ یہ چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ ایک سعودی اخبار میں ان باہر کے مزدوروں کی تعریف کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ان کی جانفشانی کے بغیر ہم اتنی ترقی نہیں کر سکتے تھے، لیکن ہم نے ان کو کمتر جانا اور ان کی قدر نہیں کی....پتہ نہیں اس مضمون کا کوئی اچھا اثر ہوا یا نہیں؟مجھے یاد ہے کہ 70 19ئمیں جب مَیں پہلی بار عرب ملکوں میں گیا تھا تو اس وقت وہاں کے ٹیکسی ڈرائیور نے کہا تھا کہ تم لوگ یہاں ڈاکٹر ہو، انجینئر ہو، استاد ہو اور ہم ٹیکسی چلاتے ہیں، یا دفتروں میں چائے بناتے ہیں یا صفائی کا کام کرتے ہیں۔ زمانے کی گردش نے اب یہ حال کیا ہے کہ ہمارے لاکھوں افراد وہاں محنت مزدوری کرتے ہیں اور وائٹ کالر والے کم ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم وہاں محنت مزدوری کرنے والے کی حیثیت سے ہی پہچانے جاتے ہیں، حالانکہ یہ مزدور اور سخت محنت کرنے والے ہی سب سے زیادہ زر مبادلہ بھیجتے ہیں۔ فیملی والے افراد کم ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی سے ربط و ضبط نہ ہونے کی وجہ سے ہماری اقدار طور طریقوں سے مقامی آبادی میں ہمارا کوئی نفوذ نہیں ہو رہا ہے، جس کے بغیر ہم اپنی روایات سے میزبان قوم کو الگ تھلگ ہی رکھتے ہیں۔دُبئی سے برمنگھم کے سفر میں میرا ہمسفر ایک برطانوی شخص تھا، جسے اس بات پر حیرت تھی کہ مَیں کراچی میں دو ماہ رہ کر آ رہا ہوں اور صحیح سالم ہوں۔ کراچی کی روزانہ قتل و غارت گری نے ہمارا امیج اتنا خراب کر دیا ہے کہ بہت سے لوگ کراچی کا نام سن کر ہی کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ کراچی کا یہ برا حال کراچی والوں کا ہی کیا دھرا ہے۔ صوبائی اور مرکزی دونوں حکومتوں نے بس یہ طے کر لیا ہے کہ خوش کن بیانات دیتے رہیں اور لاشیں روزانہ گرتی رہیں، کیونکہ اسی کا نام ہے حکومت کرنا اور جب لوگ مستقل طور پر ہراساں رہیں گے تو ایک دور وہ بھی آئے گا کہ ہر شخص اس بات پر ہی خوش ہو جائے گا کہ وہ محفوظ ہے، من چنگا تو کٹورے کا پانی بھی گنگا ہے۔اس خطرناک صورت حال سے نکلنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، جس کے لئے فوری اقدامات اگر نہ کئے گئے تو پھر بہت دیر ہو جائے گی۔ ٭