ڈرونوں کی معذوری!
ڈرون حملے جن کا آج بہت چرچا کیا جا رہا ہے، نو گیارہ سے پہلے ان کا نام بھی کسی نے نہیں سُنا تھا۔ فوج کے حلقوں میں ان ڈرونوں کا نام یو اے وی(UAV) تھا۔ یہ لفظUn-manned Aerial Vchicle کا مخفف ہے۔ یعنی ایسی فضائی گاڑی جس میں کوئی آدمی/ پائلٹ سوار نہ ہو۔ ہم نے کئی جگہ ان کا نام ”فضائی روبوٹ“ بھی پڑھا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ ڈرون (Drones) نو گیارہ کی پیداوار ہیں۔ ویسے اس کی ایجاد تو کئی برس پہلے ہو چکی تھی۔ خود پاکستان کی ائر ڈیفنس یونٹوں میں UAVs کو ہوا میں اڑا کر اس پر فضائی نشانہ بازی کی مشق کی جاتی تھی،لیکن یہ ایجاد صرف مشقوں تک ہی محدود تھی.... گاہ گاہ اس سے دشمن کے علاقے کی سرحدی جاسوسی کا کام بھی لیا جاتا تھا،لیکن یہ جاسوسی (سروے لینس) دشمن کی سرحد کے ساتھ ساتھ ہی کی جا سکتی تھی۔ جب بھی کوئی UAV دشمن کی سرحد کے اندر ذرا زیادہ دور گھسنے کی کوشش کرتا تو دشمن کے انٹرسیپٹر اس کو آن گھیرتے اور یہ ان عقابوں کے سامنے ایک چڑیا سے بھی آسان شکار بن جاتا۔
UAV کی اِسی چڑیا کو آج امریکہ نے REAPER اور RAPTOR وغیرہ بنا دیا ہے جو گویا عقابوں کے بھی شکاری ہیں اور انہیں بجا طور پر سیمرغ کہا جا سکتا ہے۔ فوج کے واقفانِ حال کو معلوم ہے کہ جس تیزی اور عجلت سے امریکہ نے ہوائی جہاز کی ایجاد (1903ئ) کے صرف دس برس بعد (1913ئ) بمباروں، انٹر سیپٹروں، ٹرانسپورٹروں اور فائٹروں کے غول کے غول کھڑے کر دیئے تھے، اسی امریکہ نے صرف دس بارہ برسوں میں (2001ءسے لے کر آج تک) ڈرون ٹیکنالوجی کو زمین سے اُٹھا کر آسمان تک پہنچا دیا ہے.... امریکہ کا ایک اور اعزاز یہ بھی ہے کہ اس نے پہلی عالمی جنگ میں ہوائی جہازوں کی ڈویلپ منٹ میں حیرت انگیز ندرت ِ فکر و عمل کا مظاہرہ کیا۔ پھر امریکہ کے شانہ بشانہ یورپ کے کئی دوسرے ملکوں (فرانس، جرمنی، برطانیہ، اٹلی، روس وغیرہ) نے بھی فضائی ٹیکنالوجی میں امریکہ کی ہمسری حاصل کر لی، لیکن اس ڈرون ٹیکنالوجی کو فی الحال امریکہ ہی کی اکلوتی جاگیر تصور کیا جا رہا ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی پر امریکہ کی اس بِلا شرکت ِ غیرے اجارہ داری نے دوسرے یورپی ممالک پر امریکی فوقیت (Edge) کو نمایاں کر دیا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اگر نو گیارہ نہ ہوتا تو بغیر پائلٹ کے یہ ہوائی جہاز ایامِ طفولیت سے باہر نکل کر جوانی کی دہلیز پر قدم نہ رکھ سکتے۔
امریکہ جو اس نئی ہزاری سے دس برس پہلے (1990-91ءمیں) دنیا کی واحد سپر پاور بن چکا تھا، اس کے جب دو جڑواں برج مسلمانوں نے مسمار کر دیئے تو بش انتظامیہ کے غیظ و غضب کو سمجھنا اتنا مشکل نہیں تھا، چنانچہ امریکہ نے بغیر کسی وجہ کے مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیاءکا جغرافیہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا.... افغانستان، عراق اور لیبیا پر لشکر کشی، اسی غم و غصے اور شکست ِ پندار کا نتیجہ تھی.... امریکیوں کو جس کسی مسلمان ملک پر یہ شبہ ہوا کہ اس کے پاس امریکہ کو ٹارگٹ کرنے کی کوئی سی بھی سپیس موجود ہے تو انہوں نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ اس پر یلغار کر دی۔ افغانستان اور عراق پر فوج کشی کے دوران امریکی بوٹ بھی ان ممالک کی سر زمین پر آ پہنچے،لیکن کچھ عرصے بعد جب یہ امریکی بوٹ(Boots) اپنے کئے کی تھوڑی بہت سزا پانے لگے تو امریکہ نے اپنی سٹرٹیجی بدل لی۔ لیبیا پر بہت کم امریکی/ ناٹو بوٹ لائے گئے اور شام پر تو ایک بھی امریکی انفنٹری سولجر دکھائی نہ دیا۔ یہاں امریکیوں نے اور قسم کی حکمت عملی سے کام لیا۔ اس پر ایک طویل عرصے سے اخباروں میں بہت سا مواد آ چکا ہے، لہٰذا اس کو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ میدان ِ کار زار جب اور جہاں بھی گرم ہو ڈرون حملے وہاں نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ میں طیارہ شکن توپخانہ اور دوسرے ائر ڈیفنس وسائل کسی بھی Reaper یا Raptor وغیرہ کو اڑا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ ڈرون صرف انہی علاقوں میں استعمال کئے جا سکتے ہیں جن پر سے جوابی اقدامات کا خطرہ نہ ہو۔ پاکستان (فاٹا)، صومالیہ اور یمن کے وہ علاقے جو سنسان میدان جنگ کا منظر پیش کرتے ہیں وہ امریکی ڈرونوں کی پسندیدہ آماج گاہ ہیں۔ آج اگر شمالی وزیرستان میں پاک فوج داخل ہو کر طالبان کے خلاف کارروائی شروع کر دے تو آپ دیکھیں گے کہ ڈرون حملے فی الفور رک جائیں گے۔ یہ رکاوٹ/ تعطل ڈرون ٹیکنالوجی کی معذوری ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ جب شمالی وزیرستان میں فوج آئے گی تو اس کے ساتھ ائر ڈیفنس وسائل بھی ضرور آئیں گے۔ تب وزیرستان کی فضاﺅں سے ڈرونوں کا غیاب (Absence) امریکی سٹرٹیجی نہیں، امریکی مجبوری بن جائے گا۔
ڈرونوں کا ذکر تو ویسے ہی برسبیل تذکرہ آ گیا۔ مَیں دراصل اس بارے میں قارئین کرام کو آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ نو گیارہ کے بعد امریکہ نے مسلم ممالک پر جو بے دریغ لشکر کشی کی، اس کی وجوہات (ماسوائے انتقام) اور کیا کیا تھیں۔ میرے ذہن میں مندرجہ ذیل تین چار وجوہات اور تھیں:
-1 تیل اور گیس کا حصول۔
-2 عالمی اجارہ داری کا استحکام۔
-3 منرو(Monroe) ڈاکٹرین پر عمل درآمد کی ایک اور کوششیں۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تھا تو اس وقت مغربی تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں نے باجماعت ہو کر اس مفروضے کو عام کرنا شروع کر دیا تھا کہ امریکہ، افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں کا تیل اور ان کی گیس یورپ اور اپنے ہاں لے جانا چاہتا ہے۔ ڈِک چینی جو ایک سابق نائب صدر ہیں، ان کی امارت اور تیل کی تجارت پر ان کی اجارہ داری کی عجیب عجیب سٹوریاں فائل کی جاتی تھیں۔ امریکی حملے کی یہی غرض و غائت ایک لمبے عرصے تک مغربی صحافیوں کا محبوب موضوع بنی رہی.... لیکن اب وہ موضوع بالکل غائب ہو چکا ہے۔ کسی میڈیا پر اس کو ”یاد“ نہیں کیا جاتا۔
اور جہاں تک امریکہ کی عالمی اجارہ داری کا تعلق ہے تو یہ اپنی اپنی فکر اور سوچ کی بات ہے۔ دنیا میں آج تک کوئی ایک قوم/ ملک/ طاقت ہمیشہ برسر اقتدار نہیں رہی۔ ازل سے تا اِمروز، شرارِ بو لہبی چراغِ مصطفوی سے ستیزہ کار رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ امریکہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمیشہ ہی دُنیا کی واحد سپر پاور بنا رہے گا تو اس کے دانشوروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ مادرِ گیتی(Mother Earth) نئی نئی اقوام کو جنم دینے کے لئے ہمیشہ حاملہ رہتی ہے:
زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار
رنگ ہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار
اس زیاں خانے میں کوئی مِلّت ِ گردُوں وقار
رہ نہیں سکتی ابد تک بارِ دوشِ روزگار
اس قدر قوموں کی بربادی کا ہے خُوگر جہاں
دیکھتا بے اعتنائی سے ہے یہ منظر جہاں
ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار
ذوقِ جِدت سے ہے ترکیب ِ مزاجِ روزگار
ہے نگینِ دہر کی زینت ہمیشہ نامِ نَو
مادرِ گیتی رہی آبستنِ اقوامِ نَو
اور منرو ڈاکٹرین پر تو ہم نے گزشتہ عسکری ایڈیشن میں (زندگی میگزین) اس کے پس منظر اور پیش منظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی، البتہ کوئی امریکیوں سے یہ پوچھے کہ دوسری جنگ عظیم میں آپ کا منرو ڈاکٹرین اس وقت کہاں تھا جب ستمبر 1939ءسے اواخر1942ءتک شمالی اور جنوبی بحر اوقیانوس میں جرمن آبدوزیں(U - Boats) دندناتی پھرتی تھیں اور امریکی بحری جہاز ان کے خوف سے لرزاں رہا کرتے تھے۔ اس وقت تو منرو ڈاکٹرین کا کوئی نام لیوا سامنے نہیں آ سکا تھا۔ اب کیسے آئے گا؟ ٭